پارلیمنٹ کو بیوروکریسی کے ہاتھ میں اپنا اختیار نہیں دینا چاہیے، فرحت اللہ بابر
اسلام آباد (خبر نگار)پاکستان پیپلزپارٹی کے سینیٹر فرحت اللہ بابر نے فاٹا کے متعلق ایس ڈی پی آئی کی جانب سے کرائے جانے والے ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ حال ہی میں قومی اسمبلی سے فاٹا بل منظور کرکے سینیٹ بھیجا گیا ہے کہ اس میں کچھ سنجیدہ غلطیاں ہیں جنہیں درست کرنا بہت ضروری ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ اعلیٰ عدالتوں کو فاٹا تک وسعت دینے کے لئے حکومتی نوٹیفکیشن پر انحصار کیا گیا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ پارلیمنٹ سے بڑھ کر کوئی سرکاری نوٹیفکیشن نہیں ہو سکتاا ور پارلیمنٹ کو بیوروکریسی کے ہاتھ میں اپنا اختیار نہیں دینا چاہیے۔ انہوں نے یاد دلایا کہ اس سے قبل صوبائی ایڈمنسٹریشن کے تحت جو قبائلی علاقے تھے (پاٹا) بشمول چترال، دیر، سوات اور مالاکنڈ میں بھی اعلیٰ عدالتوں کا اختیار نہیں تھا تاہم 1973ء میں پارلیمنٹ کے ایک ایکٹ کے ذریعے یہ اختیار دیا گیا اور اس کے لئے کسی قسم کے حکومتی نوٹیفکیشن کی ضرورت نہیں تھی۔ انہوں نے پوچھا کہ اب یہ مختلف طریقہ کیوں اختیار کیا گیا؟ کیا اس کا مطلب سیاسی پوائنٹ سکورنگ ہے؟ اور پاٹا کے لوگوں کو ان کے حقوق سے محروم رکھنا ہے۔ دوسری بات یہ کہ عدالتوں کا اختیار قبائلی علاقوں کے کچھ منتخب حصوں تک ہوگاا ور انہوں نے کہا کہ ہر صورت میں اسے تمام قبائلی علاقوں تک وسعت دی جانی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ قبائلی علاقوں نے انصاف تک رسائی اور اپنے بنیادی حقوق کے لئے 70 سال انتظار کیا ہے اور اب اس مشکوک طریقہ کار کے تحت اگلے 50سال وہ اس کا مزید انتظار کریں گے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ قانون کو پورے فاٹا میں فوری طور پر نافذ کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ ایک نوٹیفکیشن کے ذریعے کچھ علاقوں میں اعلیٰ عدالتوں کااختیار دینے سے یہ شکوک و شبہات پیدا ہوں گے کہ یہ اس لئے کیا جا رہا ہے کہ بیرونی دبائو کے تحت شکیل آفریدی کو رہا کرنے کے لئے موقع پیدا کیا جا رہا ہے۔ انہوںنے کہا کہ وہ شکیل آفریدی کی رہائی کے خلاف نہیں کیونکہ شکیل آفریدی کو اسامہ بن لادن کے خلاف آپریشن کے لئے سہولت دینے پر سزا نہیں دی گئی بلکہ اسے منگل باغ کو مدد فراہم کرنے پر سزا دی گئی ہے۔ انہوں نے جے یو آئی(ف) اور پی کے ایم اے پی کی جانب سے اس بل کو غیرآئینی کہہ کر اس کی مخالفت بھی اعتراض کیا۔ انہوں نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 175(2) اور 247(7) دونوں میں کہا گیا ہے کہ پارلیمنٹ اعلیٰ عدالتوں کو قبائلی علاقوں تک وسعت دینے کے لئے قانون سازی کر سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان ضروری ترامیم کے بعد یہ قانون سازی فاٹا کے عوام کو بنیادی حقوق دینے کے لئے ایک بہت بڑا قدم ہوگی اور ایف سی آر کا کالا قانون ختم ہو جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ آئین کا آرٹیکل 1 کہتا ہے کہ قبائلی علاقے پاکستان کا حصہ ہیں اور اس قانون کے ذریعے فاٹا کے عوام کو وہی بنیادی حقوق مل جائیں گے جو ملک کے دیگر علاقوں کے لوگوں کے پاس ہیں۔ پشاور ہائی کورٹ نے 2014ء کو کہا تھا کہ اعلیٰ عدالتوں کا اختیار قبائلی علاقوں تک بڑھایا جائے جس کے لئے کے پی صوبائی اسمبلی نے اس بارے متفقہ قراردادیں پاس کی تھیں۔ بنیادی حقوق کوئی بھی غصب نہیں کر سکتا یہاں تک کہ پارلیمنٹ بھی ایسا نہیں کر سکتی۔