انسانیت سرنگوں ، روح زخموں سے چور
احسان شوکت
azee_ahsan@hotmail.com
درندہ صفت انسان نما بھیڑیوں کی جانب سے معصوم کمسن بچے ، بچیوں کے اغواء اور انہیں زیادتی کا نشانہ بنا کر بیہمانہ طریقے سے موت کے گھاٹ اتارنے کے ایسے دلخراش و افسوسناک واقعات رونما ہو رہے ہیں کہ جنہیں سوچ کر بھی دل دہل اور کلیجہ پسیج جاتا ہے مگرانتہائی افسوسناک اور تکلیف دہ بات یہ ہے کہ ایسے واقعات میں بہت تیزی سے اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ان درندوں کو افراد کہنا بھی انسانیت کی توہین ہے، کیونکہ ایسے لوگ معاشرے میں انسانوں کے روپ میں بے رحم درندے ہیں۔ان واقعات کی وجہ سے لوگ بچیوں کے حوالے سے شدید پریشانی و خدشات کے علاوہ عدم تحفظ کا شکار بھی ہونے لگے ہیں۔ کمسن بچے، بچیوں کے اغوائ، زیادتی اور پکڑے جانے کے خوف سے انہیں قتل کرنے کے واقعات تسلسل سے رونما ہورہے ہیں اوردرندروں کی درندگی بڑھتی جارہی ہے۔ قصور میں ظالم درندے کی جانب سے سات سالہ کمسن بچی زینب کو اغواء اورزیادتی کے بعدبیہمانہ طریقے سے دونوں ہاتھوں کی کلائیاں کاٹ اور گلا دبا کرموت کے گھاٹ اتارنے اور نعش کوڑے کے ڈھیر سے ملنے کی لرزہ خیز واردات سے انسانیت کانپ اٹھی ہے۔یہ صورتحال ہمارے معاشرے کے منہ پر ایک طمانچہ ہے ۔جس سے نہ صروف انسانیت کا سر شرم سے جھک گیا ہے جبکہ روح بھی زخموں سے چور ہے۔اگر ہم حقائق کو مدنظر رکھیں اور کسی لگی لپٹی کے بغیر اپنے معاشرے میں درندگی کے ایسے واقعات کا جائزہ لیں تو افسوسناک صورتحال یہ ہے کہ ایسے شرمناک واقعات ہمارے معاشرے میں نئے نہیں ہیں۔ آئے روز ہمارے ملک کے تمام حصوں میں ایسے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں۔ جہاں درندہ صفت افراد کی جانب سے معصوم بچوں کو ورغلا، ڈرا دھمکا، پھنسا اور زبردستی اپنی ہوس کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ ایسے انسانیت سوز واقعات میں سے متعدد واقعات منظر پر بھی آتے ہیں۔ جن کے مقدمات درج ہونے کے علاوہ اخبارات میں رپورٹ بھی ہوتے ہیں جبکہ بچوں کے ساتھ درندگی کے بیشتر واقعات میںلوگ معاشرے میں اپنی عزت آبرو کے نام پر خاموشی اختیار کرنے کو ترجیح دیتے ہیں ،حالانکہ اسے جہالت کہاجائے تو غلط نہ ہو گا۔ لوگ بدنامی، خوف و ڈر، مجبوری، پولیس کے رویوں، کمزور عدالتی نظام اور انصاف نہ ملنے کے خدشات کے پیش نظر ایسے واقعات میں نہ صرف انصاف کے حصول سے کنارہ کشی کر لیتے ہیں بلکہ ایسے واقعات جو کہ معاشرے کا بہت بڑا ناسور ہے، اسے چھپاتے بھی ہیں۔جس وجہ سے ایسے جرائم میں ملوث درندے ناصرف بچ نکلتے ہیں بلکہ درندگی کے ان واقعات میں بتدریج خوفناک حد تک اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔خوفناک صورتحال یہ ہے کہ دو سال قبل قصور کے علاقہ حسین خان والا میں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی اور ویڈیو سکینڈل سامنے آیا تھا تواس نے ہر ذی شعور شہری کو دکھ، کرب اور غم و غصے کے علاوہ ایک انجان وسوسے میں مبتلا کر دیا تھا۔ اس کربناک واقعہ میں ایک یا دو نہیں بلکہ تین سو کے قریب بچوں، بچیوں کو جنسی درندگی کا نشانہ بنا کر وحشیانہ کھیل رچایا گیا تھا ۔ سنجیدہ حلقے اس صورتحال سے پہلے ہی کرب و دکھ میں مبتلا تھے، مگر اب قصور میں دوبارہ انسانیت سوز واقعات نے تو ہمارے معاشرے پر انسانی و اخلاقی اقدار اور مشرقی روایات کی پامالی کے حوالے سے کئی سوال اٹھائے ہیں۔سوچنے کی بات ہے کہ قصور میں گزشتہ ڈیڑھ برس کے دوران 12 بچوں کے اغوائ، زیادتی اور قتل کے واقعات رونما ہو چکے ہیں مگر پولیس معاملہ نبٹا نے کے لئے پولیس مقابلوں میں مبینہ ملزمان کو ہلاک کر کے اعلیٰ کارکردگی کا ڈھنڈورا پیٹتی رہی کہ بچیوں کے ساتھ زیادتی و قتل کے ملزمان کو کیفر کردار تک پہنچا دیا گیا ہے مگراب پھر ایک اور انسانیت سوز واقعہ رونما ہو گیا ہے ۔جس سے پولیس کی کارکردگی پر سوالیہ نشان اٹھا ہے تو دوسری طرف والدین ایک ناانجان خوف و وسوسے کا شکار ہوئے ہیں۔پولیس کے اس رویے پر جتنا افسوس کیا جائے کم ہے ۔حقائق یہ ہیں کہ نہ صرف قصور بلکہ صوبہ بھر کے دیگر اضلاع کی صورتحال بھی کچھ مختلف نہیں ہے۔ صوبہ بھر میںگزشتہ سال 2017ء میں 3 ہزار 1 سو 47 بچیوں و خواتین کو زیادتی جبکہ 1 سو 86 بچیوں و خواتین کو اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا ہے۔سواچار سال قبل12 ستمبر 2013ء میں مغلپورہ لاہور کی پانچ سالہ بچی سنبل کے اغواء اور زیادتی کا واقعہ سامنے آیا تھا۔ملزم کی سی سی ٹی وی فوٹیج بھی سامنے آئی تھی۔ اس وقت کے وزیراعظم، چیف جسٹس آف پاکستان اور وزیراعلیٰ پنجاب سمیت تمام اعلیٰ حکام کے نوٹس کے باوجود تاحال نہ تو ملزمان پکڑے جا سکے اور نہ ہی اس کیس میں کوئی اہم پیشرفت ہوئی ہے۔ اب زینب کیس میں پھر تمام حکام وہی تاریخ دہرا رہے ہیں ۔ آئے روز بچوں سے زیادتی کے واقعات میں جس طرح تشویشناک حد تک اضافہ ہو رہا ہے اس کے اسباب کا احاطہ کرنا ضروری ہے۔ ایسے واقعات کے سامنے آنے پر حکومت ، تمام سیاسی جماعتیں اور قانون نافذ کرنے والے ادارے بالعموم سنجیدگی کا مظاہرہ کرنے اور اس کا سدباب کرنے کی بجائے بیان بازی، بلند بانگ دعوے اور سیاسی پوائنٹ سکورنگ شروع کر دیتے ہیں۔ قصور کا واقعہ کوئی آج تو رونما نہیں ہوا۔ ان درندگی کے واقعات کا تسلسل گزشتہ ڈیڑھ سال سے جاری تھا۔ مگر ہمارے قانون نافذ کرنے والے اداروں، ایجنسیوں، حکمران سیاستدانوں اور دیگر اداروں کی آنکھیں بند تھیں۔ اداروں کی اس مجرمانہ غفلت، نااہلی اور ناقص کارکردگی کا جواب تو حکمران و پولیس حکام اور ان اداروں کے حکام ہی دے سکتے ہیں مگر سچ بات تو یہ ہے کہ ہمارے ملک میں ذمہ دار اداروں کے خلاف کارروائی تو دور کی بات ان کو پوچھنے والا ہی کوئی نہیں۔ سیاسی وابستگی پر تقرریاں حاصل کرنے اور حکمرانوں کی خوشامدکرنے والے پولیس حکام تو حکمرانوں کی آشیرباد کے لئے ان کی ڈیوٹیاں دے رہے ہیں۔ ان کی کسی معاملہ میں بازپرس کیسے ہو سکتی ہے؟۔ اب بچی زینب کے واقعہ پر چیف جسٹس آف پاکستان ،وزیراعظم اوروزیر اعلیٰ پنجاب سمیت تمام اعلی حکام نے نوٹس لے لیا ہے۔ تمام سیاسی جماعتوں کے قائدین بھی پوائنٹ سکورنگ کے لئے دھڑا دھڑ زینب کے گھر کے چکر لگا رہے ہیں اور میڈیا پر خوب ’’چھائے‘‘ ہوئے ہیں۔ مگر کیا یہ دعوے، نوٹس اور جے آئی ٹی کی تشکیل اور دیگر اقدامات کیا پہلی دفعہ کئے گئے ہیں؟۔ نہیں، ہرگز نہیں۔لاہور میں مغلپورہ کی بچی سنبل کیس اور قصور میں بچوں کے ساتھ بدفعلی کے واقعات میںبھی یہی صورتحال دہرائی گئی تھی۔ ملزمان کی گرفتاری کے لئے ٹیسٹ کیس قرار دینے کے باوجود آج تک سنبل واقعہ میں ملوث ملزمان گرفتار نہیں ہو سکے ہیں۔ صورتحال یہ ہے کہ قصور میں دو سال قبل بچوں سے بدفعلی کے واقعات میں ملوث تمام ملزمان رہائی پاچکے ہیں ۔ اگر ہمارا عدالتی نظام موثر اور مضبوط ہوتا اور اگر واقعی پولیس نے اصل ملزمان کو پکڑ لیا تھا تو انہیں عدلیہ کے ذریعے قرار واقعی سزا ملتی تو نہ صرف ملزمان کیفر کردار تک پہنتے بلکہ ہمارا عدالتی نظام بھی سرخرو ہوتا۔ معاشرے میں موجود ایسے درندوں کو سبق ملتا اور ان کے دل میں سزا کا خوف و ڈر پیدا ہوتا مگر ہمارے معاشرے میں ایسے واقعات کو ختم کرنے اور ان کا سدباب کرنے کے لئے سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا جا رہاہے۔ اس واقعہ کی سب بہت مذمت کر رہے ہیں اور اسے ہمارے معاشرے کیلئے بڑی بدنامی و ذلت گردان رہے ہیں مگر کیا آئے روز وطن عزیز میں ایسے ذلت آمیز واقعات رونما نہیں ہورہے؟۔ آپ نے ایسے واقعات کے سدباب کے لئے کون سی قانون سازی کی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ والدین بدنامی کے خوف سے ایسے مسئلہ کو چھپائیں نہیں بلکہ درندوں کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لئے اپنا کردار ادا کریں۔ اب ہم قانون نافذ کرنے والے اداروں کے کردار کی جانب آئیں تو وہ کردار بھی انتہائی مجرمانہ ہے۔ پولیس آئے روز چیکنگ اور سرچ آپریشن کے نام پر عام شہریوں کے گھر دھاوا بول دیتی ہے ،مگر ملزمان کو درندگی کا کھیل کھیلنے کی چھٹی دے دی جاتی ہے ۔ اس واقعہ کے بعد ایسا لگتا ہے کہ ہم سانحات کے منتظر ہوتے ہیں ۔ جب بھی کوئی ایسا سانحہ سامنے آیا تو تب تب ہی حکمرانوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے ایسے ہی انصاف فراہم کرنے اور آئندہ سے ایسے واقعات کو روکنے کے دعوے کئے تھے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ ہم منافقت سے کام لینا چھوڑیں اور ہمارے معاشرے پر بدنامی کا یہ جو داغ لگا ہے اسے چھپانے کی بجائے اسے دھونے کے لئے ملزمان کو کیفر کردار تک پہنچائیں۔ ایسے معاملہ میں حکومت معاشرے اور تمام اداروں کو اپنی ذمہ داریاں ادا کرنا ہوں گی۔ حکومت اس سلسلہ میں موثر قانون سازی کرے ، پولیس قوانین پر بلاامتیاز عملدرآمد کرے، عدالتیں ملزمان کو قرار واقعی سزا دیں جبکہ سب سے زیادہ اہم کردار والدین ، اساتذہ، میڈیا اور عوام ہے کہ وہ ایسے واقعات کو روکنے اور ان کے سدباب کے لئے اپنا مثبت کردار ادا کریں تاکہ شہریوں میں اس حوالے سے شعور پیدا ہو اور ہم اسے معاشرتی ناسور کو جڑ سے اکھاڑ پھینکیں۔اس انتہائی تشویشناک صورتحال کے پیش نظر ضرورت اس کی بات کی ہے کہ پولیس و قانون نافذ کرنے والے ادارے ایسے درندہ صفت ملزمان کے خلاف گرفت مضبوط کریں۔انہیں قانون کے کٹہرے میں لایا جائے اور ان ملزمان کو نہ صرف سخت سزائیں دی جائیں بلکہ ان پر عملدرآمد بھی کیا جائے۔ ایسے ملزمان کو کیفر کردار تک پہنچا کرمقام عبرت بنا دیا جائے ،تاکہ آئندہ کسی کو ایسی درندگی کی جرات نہ ہو سکے۔