وزیراعلی میاں شہباز شریف نے گزشتہ روز صوبائی دارالحکومت میں والٹن روڈ پر باب پاکستان کی تعمیرنو کے منصوبے کا افتتاح کیا، اس موقعہ پر انہوں نے کئی ایک موضوعات پر اظہار خیال کیا۔ انہوں نے نیب کی کارگزاری پر بات کرتے ہوئے کہا کہ زرداری کی لوٹ مار کے قصے عام ہیں کوئی پوچھنے والا نہیں، مگر (ہمیں) چیئرمین نوٹسوں پر نوٹس بھجوا کر ’’اظہار محبت‘‘ کر رہے ہیں لیکن میں نیب کا اصل چہرہ دکھائوں گا۔ انہوں نے کہا کہ مجھ پر ایک نہیں ایک ہزار الزامات لگائیں، لیکن اگر ایک دھیلے کی کرپشن ثابت ہو جائے تو میں معافی مانگ کر گھر چلا جائوں گا۔ نیب زندہ لوگوں کو تو پوچھتا نہیں، لیکن مرحوم والد کو نوٹس بھجوا دیا گیا جنہوں نے اس ملک میں کارخانے لگائے لیکن پیپلزپارٹی کے دور میں انہیں تباہ کر دیا گیا۔
نیب ایک ایسا قومی ادارہ ہے جس کا فرض کرپٹ لوگوں اورقومی وسائل لوٹنے والوںکا محاسبہ کرنا ہے۔ اس لحاظ سے قومی زندگی میں نیب کی اہمیت عدلیہ سے کم نہیں۔ لیکن وزیراعلی پنجاب کے بیان کی تلخی سے محسوس ہوتا ہے کہ نیب اپنے فرائض کی ادائیگی کے دوران، غیر جانبداری برقرار نہیں رکھ پا رہا ہے۔ مچھر چھان کر پیا جا رہا ہے، ہاتھی سالم نگلا جا رہا ہے۔ یقیناً اس روش کو انصاف اور عدل نہیں کہا جا سکتا۔ انصاف اور عدل کا تقاضا تو یہ ہے کہ ترازو کا پلڑا ایک جانب نہ جھکنے پائے اور یہ توازن اتنا واضح ہو کہ قوم کا ہر ادنیٰ و اعلیٰ صاف دیکھ رہا ہو۔ آخر کسی کو شکایت کا موقعہ ہی کیوں دیا جائے۔ ملک کی حالت یہ ہے کہ یہاں سیاست نہیں ہو رہی، الزام تراشی اور دشنام طرازی کا بازار گرم ہے۔ اگر ہمارے مقتدر اداروں کے، کھرے سے کھوٹا الگ کرنا جن کا فریضہ ہے، ارکان نے قرآن مجید کی 49ویں سورت الحجرات پڑھی ہے تو اس کی روشنی میں کون رہ گیا ہے صادق وامین۔ سورہ میں صاف فرمایا گیا ہے ایک دوسرے کا تمسخر نہ اڑائو ایک دوسرے پر الزام تراشی نہ کرو، ایک دوسرے کو بُرے القابات سے نہ پکارو۔ ان ارشادات ربانی کی خلاف ورزی کرنے والا، کسی درجہ کا مسلمان ہو گا؟ دشمن اندر گھس آنے کی کھلی دھمکیاں دے رہا ہے مگر سیاست دان باہم دست و گریبان ہیں۔ عام آدمی نے اپنی توقعات عدالتوں اور نیب سے وابستہ کر رکھی ہیں اگر یہ ادارے انصاف کر رہے ہوں گے تو دشمن ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتا، پاکستان کو کوئی شکست نہیں دے سکتا! قوم کی آخری امید یہی ادارے ہیں۔ آرزو ہے کہ وہ یکطرفہ کارروائیوں کا تاثر نہ پیدا ہونے دیں۔!
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024