جمعۃ المبارک ‘ 2؍ ربیع الثانی 1436ھ‘ 23 ؍ جنوری 2015ء
پاکستان شدت پسندی کا بطور ہتھیار استعمال بند کرے۔ حالات ٹھیک ہو جائیں گے۔ کرزئی۔
اسے کہتے ہیں ’’رسی جل گئی پر بل نہیں گیا‘‘ احسان فراموشی کی بدترین مثال اگر کسی نے دیکھنی ہو تو وہ حامد کرزئی کو دیکھ لے۔ جب افغانستان پر طالبان کی حکومت تھی یا اس سے پہلے روسی حمایت یافتہ افغانیوں اور ان کے جانے کے بعد افغان مجاہدین کی تنظیمیں اور سیاسی جماعتیں حکمران رہیں اس تمام عرصہ میں ان محب وطن افغانیوں نے شاید کرزئی کی اصل حقیقت مدنظر رکھتے ہوئے اسے افغان سرزمین میں گھسنے نہیں دیا۔ شاید وہ جانتے تھے کہ یہ احسان فراموش شخص ہے۔ اس وقت یہ حضرت پاکستان کے ٹکڑوں پر بلوچستان میں سرچھپائے بیٹھے تھے اور اپنے باطن میں خباثتیں جمع کر رہے تھے۔ کرزئی کو کوئٹہ میں ہر طرح کی سہولتیں گاڑی بنگلہ کھانا پینا میسر تھا۔ مگر کہتے ہیں ناں ’’اصل ذات سے خطا نہیں کم اصل سے وفا نہیں‘‘ تو درست ہی کہا جاتا ہے۔
موصوف بعد میں افغانستان جا پہنچے اور اسی پاکستان کو برا بھلا کہنے کے صلے میں صدر بنے اور اپنے دور حکومت میں ہر الزام پاکستان کے سر تھوپتے اور بھارت ماتا کی جے کے نعرے لگاتے رہے۔ وہ اب بھی اس ملک پر الزام تراشی سے باز نہیں آ رہے جو افغانستان کی بدولت سب سے زیادہ دہشت گردی کی عالمی سازش کا شکار ہے۔ جان و مال کی قربانیاں بھی سب سے زیادہ دے رہا ہے۔ اگر یہ ملک نہ ہوتا تو افغانستان کا یہ نقشہ نہ ہوتا جو آج ہے۔ یہ کئی وار لارڈ میں بٹ چکا ہوتا۔ یہ پاکستان کا ہی احسان ہے کہ اس نے لاکھوں افغان مہاجرین کو گلے لگایا۔ کھلایا پلایا سہارا دیا اور افغانستان کی حرمت اور وحدت کو پامال نہ ہونے دیا۔ مگر افسوس انہی مہاجرین میں کرزئی جیسے آستین کے سانپ آج پاکستان کیخلاف بولتے ہیں۔ جس پر بے اختیارکہنا پڑ رہا ہے…؎
رنج کچھ ایسے اٹھائے ہیں کہ جی جانتا ہے
دوست کچھ ایسے بنائے ہیں کہ جی جانتا ہے
خدا ہمیں ایسے دوستوں سے محفوظ رکھے۔
٭…٭…٭…٭
کل بہادر شاہ کی اولاد قلعہ، انگریز پاکستان اور بھارت واپس مانگ لیں تو کیا ہو گا۔ سپریم کورٹ کے وقف املاک کیس میں ریمارکس
ملک بنے ہوئے 68 برس ہو گئے مگر لوٹ مار کرنے والوں‘ ناجائز قبضہ گروپوں‘ کرپٹ مافیا اور جرائم پیشہ مفت خوروں کے پیٹ ابھی تک نہیں بھرے۔ ہونا تو یہ چاہئیے تھا کہ ان کے پیٹ بھر بھر کے پھٹ جاتے مگر افسوس ایسا نہیں ہوا اور انکی تو ندیں پھول پھول کر مشک بن چکی ہیں مگر طلب کم نہیں ہوئی اور آج تک…؎
کوچے کوچے گوشے گوشتے لوٹ مچی ہے لوٹ
جنگل جنگل بستی بستی آگ لگی ہے آگ
کی کیفیت ہمارے ملک میں جاری ہے۔ بھارت اس معاملے سے ہم لوگوں سے بہت اچھا رہا اور آگے نکل گیا۔ اسے بھی ہمارے ساتھ آزادی ملی مگر اسے بھارت نے اپنی حقیقی آزادی بنا لیا اور ہم نے آزادی کا مطلب قیامت تک ہر قسم کی لوٹ مار میں آزادی سمجھ لیا۔ بھارت میں 1955ء میں قانون کے تحت وقف املاک کا مسئلہ ٹھپ کر دیا گیا اور جو شخص جس چیز پر قابض ہے صحیح یا غلط اسے اس کی حق ملکیت تسلیم کر لیا گیا۔ مگر ہمارے ہاں وہ اندھیر نگری آج تک مچی ہوئی ہے۔ حالانکہ اب نہ وہ لوگ رہے جو چھوڑ کر گئے تھے اور نہ وہ رہے جنہوں نے آ کر قبضہ کیا۔
ان حالات میں سپریم کورٹ کے درست ریمارکس تو واقعی لاجواب ہیں۔ اگر والیان ریاست تاج ہند کے وارث اپنا اپنا کیس لے کر آگئے تو کیا جمعہ بازار لگے گا۔ کوئی شاہی قلعہ مانگے گا۔ کوئی شیش محل کوئی تاج محل مانگے گا کوئی مقبرہ جہانگیر کوئی شالیمار باغ کا وارث نکلے گا تو کوئی جامع مسجد دہلی کا ابھی یہ جھگڑا چل ہی رہا ہو اور انگریز آ کر واپس اپنا حق ملکیت طلب کرتے ہوئے ایک بار پھر پاکستان اور بھارت کو دوبارہ اپنے قبضہ میں لینے کا غوغا بلند کریں تو کیا منظر ہو گا۔
٭…٭…٭…٭
پٹرول بحران، وزیر اعظم نے ورلڈ اکنامک فورم کے اجلاس میں شرکت کا پروگرام منسوخ کر دیا۔
یہ تو حیرت انگیز بات ہے ورنہ جب پٹرول بحران عروج پر تھا تو وزیر اعظم کو سعودی بادشاہ کی تیمار داری اور عمرہ کی ادائیگی کے لئے سعودی عرب جانے کا وقت مل گیا۔ مگر اب جب بحران میں کمی آ رہی ہے‘ حالات بہتر ہو رہے ہیں وزیر اعظم نے ایک اہم اجلاس میں شرکت کے لئے بیرون ملک جانے کا پروگرام کینسل کر دیا۔
معلوم ہوتا ہے وزیر اعظم کے نزدیک تیمار داری اہم تھی ورلڈ اکنامک فورم کا اجلاس نہیں۔ پٹرول کا بحران تو خود کھڑا کیاگیا ۔ ورنہ عالمی اداروں نے تو پہلے ہی پٹرول سستا ہونے پر حکومت پاکستان کو سستے داموں تیل ذخیرہ کرنے کا مشورہ دیا تھا۔ مگر حال مست مال مست قسم کے ہمارے حکمران بھلا کسی باہوش شخص یا ادارے کے مشوروں پر کان دھرتے ہیں؟ ان کو تو اپنے اردگرد گھیرا ڈالے مشورہ سازوں کی باتیں ہی سنائی دیتی ہیں۔
اب وزیر اعظم نے ایک اہم اجلاس سے شرکت سے معذوری ظاہر کر دی ہے تو انہیں چاہئیے اب اس اجلاس میں شرکت کے لئے ماجے، ساجھے، چمچے، کڑچھے قسم کے وفد کی بجائے اعلیٰ معاشی ماہرین کا وفد بھجوائیں تاکہ پاکستان کی بھرپور نمائندگی ہو سکے اور جاری منصوبوں کے ساتھ مستقبل کے منصوبوں کے بارے میں وہ اپنے مسائل اور پیش رفت پیش کر سکیں۔