اختیاری فیصلوں کو زیادہ سے زیادہ مقبول معتبر اور مخالفین کیلئے قابل قبول بنانے کیلئے موقف میں تھوڑی سی لچک ،قلب میں فراخی اور نظر میں وسعت سے نافذ کیا جا سکتا ہے۔ کسی بھی سیاسی جماعت کا سرمایہ اسکے مخلص کارکن ہوتے ہیں۔ عقلمند سپہ سالار اپنے لائو لشکر کو بچا کر اہداف حاصل کرتے ہیں جبکہ جنونی قائدین اپنے شمشیر زنوں کو اہداف و مقاصد کی آبیاری کیلئے دوراہے پر لا کھڑا کرتے ہیں اور یوں وہ وفا شعار کارکنوں کے زادراہ سے محروم ہو جاتے ہیں۔ عمران خان نے جوڈیشل کمیشن کے بھنور میں پھنسی کشتی کو کنارے تک لانے کیلئے اپنے کارکنوں کو سڑکوں پر لا کر انکی گردنیں اڑوا کر اپنا قد اونچا کرنے کی بجائے مصلحت کے راستے کا انتخاب کیا ہے۔ یہی داخلی جبر کا انتظار کئے بغیر قومی تقاضوں کے بارے حقیقت پسندانہ طرز عمل ہے۔ عمران خان کو اپنی سیاست قائداعظم کے دئیے گئے اصول و نظریات اور کردار و عمل کی بنیادوں پر استوار کرنی چاہئے ۔عملاً اگر وہ ایسا کرتے ہیں تو انکی سیاسی تقدیر تبدیل ہو سکتی ہے۔ ہم اس وقت داخلی اعتبار سے ایک مرتبہ پھر دوراہے پر کھڑے ہیں۔ جمہوریت نئے تجربات کی بھٹی میں سلگ رہی ہے۔ مذہبی جماعتیں حکومت سے فاصلے پر کھڑی ہیں اور عوام کی سچی ترجمانی کرنیوالا کوئی لیڈر نہیں۔ پاکستانی عوام کی اکثریت فوج کے ساتھ ذہنی اور جذباتی وابستگی رکھتی ہے لیکن حکمران فوجی بیرکوں سے جتنا دور رہیں جمہوریت کے ساتھ انکی وابستگی اتنی ہی پختہ اور مضبوط تر ہو گی۔ سیاسی محاذ پر سکوتِ مرگ طاری ہے عوام لاتعلقی کے لحاف میں بُکل مارے بیٹھے ہیں۔ سخت قسم کے خارجی دبائو کے تحت ہم نامطلوب اقدامات کر رہے ہیں۔ داخلی صورتحال نے حکومت کو ایسی راہ پر ڈال دیا ہے جو مذہبی مسائل کے گھنے جنگل کو نگلنے کیلئے کمربستہ ہے۔ دیر آید درست آید ۔عمران خان نے ان حالات سے فائدہ اٹھانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ عمرہ کے بعد وہ سیاسی حج کیلئے واشنگٹن کا طواف کرنے کا بھی اعلان کر چکے ہیں۔ پاکستان کے سیاسی افق پر چھانے کیلئے ایسے طواف لازمی تصور کئے جاتے ہیں ورنہ سیاسی جماعتوں کا غنچہ بن کھلے مرجھا جاتا ہے۔ ان طوافوں کے بعد حصول اقتدار کیلئے سیاسی قائدین کی نامرادیوں کی شرمناک کہانیاں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو سے لیکر 12 اکتوبر 1999ء کے نواز شریف کے اقتدار تک ہماری حکومتیں خزاں رسیدہ پتوں کی طرح گرتی رہیں۔ سیاستدانوں نے اپنی دیانت امانت کو زاد راہ بنایا نہ ہی انہوں نے اپنے کردار و عمل سے تاریخ بدلنے کی کوشش کی۔ انہوں نے ایک دوسرے پر تہمتیں جوڑیں‘ بھبتیاںکسیں‘ ایک دوسرے کے وقار کو مجروح کیا جس سے جمہوریت دشمن قوتوں کو شہہ ملی۔ کروڑوں عوام میاں نواز شریف کی معاملہ فہمی بالغ نظری سے توقع باندھے بیٹھے ہیں لیکن میاں صاحب عوام کی توقعات پر پورا اترنے میں ناکام ہیں۔ عمران خان عوام کیلئے ایک امید کی کرن بن کر سامنے آئے ہیں انکی سیاسی افق پر موجودگی کے باعث تمام سیاستدانوں کو لالے پڑے ہوئے ہیں۔ اب مارچ میں سینٹ کے انتخابات ہیں۔ عمران خان سینٹ الیکشن میں بھرپور حصہ لینے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ انہوں نے آنکھوں کے خواب سجائے رکھنے کی بجائے حقیقت میں میدان میں اترنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ عمران خان کے احتجاج کے دوران سراج الحق اور رحمان ملک جرگہ کی شکل میں عمران خان سے مذاکرات کرتے رہے۔ سابق وزیر داخلہ ہر بار حکومت کو مشورہ دیتے تھے کہ پی ٹی آئی ممبران کے استعفے منظور نہ کیے جائیں لیکن سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق سے تحریک انصاف کے استعفے منظور نہ کرنے کی التجائیں کرنیوالے رحمن ملک کی پارٹی نے صوبہ سندھ میں تحریک انصاف کا پتہ صاف کر دیا ہے۔ پی ٹی آئی کو سینٹ الیکشن سے باہر رکھنے کی چال کی ابتدا ہو چکی ہے۔ شاید اگلے کچھ دنوں میں ممبران قومی اسمبلی کی اسمبلی سے 40دن کی غیر حاضری کو بنیاد بنا کر انکے استعفے بھی منظور کر لئے جائیں لیکن یہ نہ صرف جمہوریت بلکہ نواز شریف کا اپنے اوپر خودکش حملہ ہو گا ۔گو کہ تحریک انصاف سندھ سے سینٹ کی کوئی نشست حاصل کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھی کیونکہ اسکے ارکان کی کل تعداد سندھ اسمبلی میں 4 ہے لیکن وہ کسی سیاسی جماعت کی حمایت کرکے کسی دوسرے صوبے میں اسکی حمایت لے سکتی تھی۔اگر تحریک انصاف کے استعفے منظور نہ کئے جاتے تو تحریک انصاف جوڑ توڑ کر کے سینٹ کی ایک سیٹ لے سکتی تھی اس خدشے کے پیش نظر پیپلز پارٹی نے استعفے منظور کئے ہیں۔ پیپلز پارٹی کو سندھ سے صرف 6 سیٹیں ملنی تھیں لیکن پی ٹی آئی کے استعفے منظور کر کے پی پی نے ایک اور نشست کا حصول ممکن بنا لیا ہے ۔اب ایم کیو ایم کو اپنی 2 نشستوں کے حصول کیلئے 5ووٹ درکار ہونگے۔اس کیلئے اسے ف لیگ یا کسی اور پارٹی کی مدد کی ضرورت ہو گی۔مسلم لیگ ن سندھ میں پی پی کا ساتھ دیگی اور اسی طرح اسے شاید سندھ سے کوئی سیٹ بھی مل جائے۔ اسی بنیاد پر آگے چل کر سینٹ میں پی پی اور ن لیگ کا اتحادبنے گا جس کے تحت ڈپٹی چیرمین پی پی کا ہو گا بلوچستان کے سابق گورنرسردار ذوالفقار مگسی کے بیٹے سردار سیف اللہ مگسی کے ڈپٹی چیرمین سینٹ بننے کی امید ہے۔ تحریک انصاف پنجاب اسمبلی سے بھی اپنا کوئی سنیٹر بنوانے کی پوزیشن میں نہیں لیکن جوڑ توڑ میں بڑا کردار ادا کر سکتی ہے کیونکہ یہاں اسکے ارکان کی تعداد 29 ہے سنیٹر منتخب کرنے کیلئے 53 ارکان کی ضرورت ہو گی وہ مسلم لیگ (ق )جماعت اسلامی کی حمایت سے بڑی کامیابی حاصل کر سکتی ہے۔ قارئین کو یاد ہو گا کہ گزشتہ سینٹ کے انتخابات میں پنجاب میں ایک آزاد امیدوار محسن لغاری کامیاب ہوئے تھے ‘مسلم لیگ ن نے محسن لغاری کی درپردہ حمایت کی تھی جبکہ پی پی کے حمایت یافتہ امید واراسلم گل ہار گئے تھے۔اس بار بھی کوئی اپ سیٹ ہو سکتا ہے۔ بہرحال تحریک انصاف خیبر پی کے سے 8سے 10 ارکان ایوان بالا میں بھیج سکتی ہے جو اسکی بڑی کامیابی ہو گی۔اب تحریک انصاف کے قائدین کو اتہام کا طورمار باندھنے اور مخالفین پر دشنام کا لاوا اگلنے کی بجائے افہام و تفہیم سے اپنے ارکان کو سینٹ بھیجناچاہئے ۔یہ اسکی بڑی کامیابی ہو گی ایوان بالا میں کوئی بھی بل آنے پر وہ اسکی حمایت یا مخالفت کر سکے گی۔ سینٹ الیکشن کے موقع پر پیپلز پارٹی نے جو حرکت کی اسکے سفلہ پن کی کوئی بھی صاحب عقل انسان حمایت نہیں کریگا۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38