حضرت علی المرتضیٰ وہ خوش نصیب انسان ہیں جنہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آغوشِ تربیت اور نگاہ لطف وکرم نصیب ہوئی۔آپ کی والدہ ماجدہ فاطمہ بنت اسد رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: جب میرا یہ بچہ تو لد ہوا تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا نام علی رکھا اور اسکے منہ میں اپنا لعاب دَہن ڈالا۔اور اپنی مبارک زبان اسکے منہ میں ڈالی جسے یہ مولود مسعود چوستا رہا یہاں تک کہ سوگیا۔(السیرة البنویہ ۔زینی دحلان)
آپ کے والد گرامی جناب ابو طالب مالی اعتبار سے زیادہ آسودہ نہ تھے۔ ایک بار مکہ میں قحط پڑا توان کے مالی حالات مزید کمزور ہوگئے۔حضور رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے معاملات ملاحظہ فرمائے تو اپنے چچا حضرت عباس کے پاس گئے اور انھیں ترغیب دی کہ ہمیں مل جل کر جناب ابو طالب کا ہاتھ بٹانا چاہیے۔ان کا ایک بیٹا کفالت کے لیے میں لے لیتا ہوںاور ایک کا ذمہ آپ اٹھا لیں۔چنانچہ حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کی کفالت ،آپ نے اپنے ذمہ کرم پر لے لی۔اس طرح قدرت کے حسنِ انتظام نے”حضرت علی کو اعلان نبوت سے پہلے ہی آغوش رسالت میں پہنچا دیا اور صدفِ احمدی میں پرورش پاکر یہ قطرئہ آبِ نیساں درشہسوار بن گیا۔اللہ تبارک وتعالیٰ نے جس وقت آپ کو اسلام کی سعادت عطاءفرمائی ۔اس وقت آپ کی عمر عزیز آٹھ برس تھی۔
جب نماز کا وقت قریب آجاتا تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ کی کسی وادی میں تشریف لے جاتے ۔حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم بھی عموماً آپ کے ساتھ ہوتے اور وہاں مل کر نماز ادا کرتے اور شام کے وقت واپس آجاتے۔ابتدائی تین سال تک تبلیغ اسلا م کا سلسلہ خاموشی سے جاری رکھا۔اور مخصوص افراد تک اس کی دعوت پہنچائی گئی۔پھر اس کے بعد اعلان عام کا حکم ہوا، اور اپنے خاندان کے قریبی لوگوں تک پیغام اسلام پہنچانے کو کہا گیاہے۔ حکمِ ربانی کی تعمیل میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خاندان کے لوگوں کو جمع کیا لیکن ابو لہب کی بدتہذیبی اور ناشائستہ گفتگو کی وجہ سے وہ محفل منتشر ہوگئی۔دوسرے دن آپ نے ایک مرتبہ پھر اپنے قریبی عزیزوں کوجمع کیا اور فرمایا کہ اے بنوعبد المطلب ! میں تمہارے سامنے دنیا اور آخرت کی بہترین نعمتیں پیش کرتا ہوں بتاﺅ۔اس معاملے میں کون میرا ساتھ دے گا ۔آپ کی یہ بات سن کر جملہ حاضرین خاموش رہے۔فقط علی اسد اللہ رسولہ کی آواز ابھری ،انہوں نے عزم وثبات سے بھرپور لہجے میں کہا۔”اگر چہ میں اس مجلس میں سب سے کم سن ہوں۔آشوب چشم میں مبتلارہتا ہوں،میری ٹانگیں بھی ناتواں ہیں، لیکن میں اسلام کے راستے میں آپ کا ساتھ دوں گا“۔اور چشم فلک پیر نے دیکھا کہ اللہ نے علی کی عمرِ عزیز کو بابرکت کیا، انھیںدیدئہ بیناعطا ءکیا۔اور ان کے قدموں کو وہ عزم وثبات عطاءکیا جو جرا¿ت وپامردی کا استعار ہ بن گیا۔
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024