تعمیراتی ضوابط کی پابندی زلزلے اور حادثات سے بچاؤ

Feb 23, 2025

جویریہ اعجاز۔۔۔۔ہست و بود

 چند دن پہلے راولپنڈی ،اسلام آباد اور گرد و نواح میں زلزلے کے شدید جھٹکے محسوس کیے گئے۔ زلزلہ پیما مرکز کے مطابق زلزلے کا مرکز راولپنڈی سے 8 کلومیٹر جنوب مشرق میں واقع تھا جس کی گہرائی 17 کلومیٹر تھی۔ اکتوبر 2005ء میں آنے والے زلزلے کی گہرائی بارہ کلو میٹر، 2015ء میں آنے والے نیپال کے تباہ کن زلزلے کی گہرائی15 کلومیٹر اور 2023ء میں ترکی اور شام کے زلزلے کی گہرائی بھی زیادہ نہ تھی۔ کہنے کامقصد یہ ہے زمین کی سطح کے قریب آنے والے زلزلے نوعیت کے اعتبار سے شدید اور تباہ کن ہو سکتے ہیں۔ اسلام آباد اور راولپنڈی فعال فالٹ لائنز، جیسے مین باؤنڈری تھرسٹ (MBT)، اور ہمالیائی ٹیکٹونک پلیٹوں کے قریب واقع ہونے کی وجہ سے زلزلے کے خطرے کے پیش نظر حساس علاقے ہیں۔ زلزلے کی شدت انسانی دل و دماغ پر ایک عجیب سا خوف طاری کر دیتی ہے۔ معمولات زندگی کے تسلسل میں خوف کے سائے مدھم ہو تے جاتے ہیں اور کئی لمحاتی ہیجان ایک معمولی یاد بن کر وقت کی دھند میں کہیں کھو جاتے ہیں ۔ حالیہ زمینی جنبش کی ریکٹر اسکیل پر شدت 4.8 تھی، لیکن اگر جانچ کا پیمانہ دہشت اور گھبراہٹ کو بنایا جائے تو بعض اوقات ایسے واقعات دل و دماغ پر ایسی گہری چھاپ چھوڑ جاتے ہیں، جسے کسی پیمانے سے ناپا نہیں جا سکتا۔
کل ایک قریبی دوست نے رہائش تبدیل کرنے کا عندیہ دیا، اور اس اچانک فیصلے کی وجہ زلزلے کے دوران پانچویں منزل پر شدت کے ساتھ محسوس ہونے والے جھٹکے اور ایک خوفناک احساسِ بے بسی تھا۔ قدرتی آفات سیلاب، طوفان اور زلزلے قدرتی نظام کا حصہ ہیں جن کوروکا نہیں جا سکتا لیکن پیشگی منصوبہ بندی سے ان کے نقصانات ضرور کم کیے جا سکتے ہیں۔ زلزلے اپنی شدت اور زیرِ زمین گہرائی کے مطابق مختلف اثرات مرتب کرتے ہیں۔ لیکن نقصان کا کافی حد تک انحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ عمارتیں کتنی مضبوط اور کس حد تک زلزلہ برداشت کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ اگر کسی علاقے میں زلزلہ آئے اور وہاں کی عمارتیں جدید تعمیراتی ضوابط کے مطابق تعمیر شدہ ہوں، تو نقصان کم سے کم ہوگا، جبکہ غیر معیاری اور ناقص تعمیرات شدید جانی و مالی نقصان کا باعث بن سکتی ہیں۔ 
 بلڈنگ کوڈز یعنی ‘‘تعمیراتی ضوابط ‘‘سے مراد وہ قوانین اور تکنیکی معیارات ہیں جن کو مدنظر رکھتے ہوئے عمارتوں کی تعمیر کی جاتی ہے تاکہ وہ محفوظ، پائیدار، اور ماحولیاتی عوامل کے موافق ہوں۔ہر ملک کے بلڈنگ کوڈز مقامی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے وضع کیے جاتے ہیں تاکہ انسانی جانوں اور املاک کو زیادہ سے زیادہ تحفظ فراہم کیا جا سکے۔ پاکستان میں ‘‘بلڈنگ کوڈ آف پاکستان’’ نافذ ہے، جسے پاکستان انجینئرنگ کونسل نے مرتب کیا ہے اور ان اصولوں کے نفاذ کی ذمہ داری صوبائی اور مقامی حکومتوں ترقیاتی اور بلدیاتی اداروں پر ہے جن کا کام متعلقہ دائرہ کار میں ان تعمیراتی ضوابط کی تعمیل کو یقینی بنانا ہے تاکہ عمارتوں کی تعمیر معیار ی اور حفاظتی اصولوں کے مطابق ہو۔ 
 سیسمک زون ایسے جغرافیائی علاقے ہیں جن کو ٹیکٹونک پلیٹوں کی حرکت، زمین کی ساخت، اور ماضی میں آنے والے زلزلوں کے خطرے اور شدت کی بنیاد پر تقسیم کیا جاتا ہے۔ پاکستان کے تعمیراتی ضوابط کے مطابق، پاکستان کو پانچ زلزلہ خیز زونز میں تقسیم کیا گیا ہے زون 4 سب سے خطرناک علاقہ ہے جس میں شمالی علاقہ جات، خیبرپختونخوا، کشمیر، اور بلوچستان کے کچھ حصے شامل ہیں جبکہ زون 2 بی اور 3 میں اسلام آباد، راولپنڈی، کوئٹہ اور ملحقہ علاقے شامل ہیں۔ سیسمک زونز میں عمارتوں کی تعمیر کے اصول زلزلے کے خطرے کے مطابق ترتیب دیے گئے ہیں۔ ملک کے مختلف شہروں میں تعمیراتی ضوابط کی خلاف ورزی کی وجہ سے آتشزدگی اور عمارتوں کے گرنے جیسے حادثات رونما ہو چکے ہیں۔ 2005ء کے زلزلے میں مارگلہ ٹاورز کے منہدم ہونے کے بعد عمارتوں کی تعمیر میں زلزلہ سے تحفظ فراہم کرنے والے ضوابط کی پابندی پر زور دیا گیا تاہم، متعدد ذرائع کے مطابق، تعمیراتی منصوبوں میں قوانین اور معیارات کی پاسداری تسلی بخش نہیں ہے۔ اسلام آباد میں  فلک بوس کثیر المنزلہ رہائشی اور کمرشل عمارتوں کی تعمیر کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے۔ اس بیان کو تحقیقی شواہد کی تائید حاصل ہے کہ دنیا بھر میں آنے والے 1100 مہلک زلزلوں میں 75 فیصد ہلاکتیں عمارتیں منہدم ہونے کی وجہ سے ہوئیں۔ غیر معیاری غیر قانونی تعمیرات انسانی جانوں کیلئے سنگین خطرہ بن سکتی ہیں۔
ضوابط اور قوانین معاشرے میں نظم و ضبط اور تحفظ کو یقینی بنانے کیلئے بنائے جاتے ہیں لیکن قوانین کا حقیقی فائدہ تبھی ممکن ہے جب ان پر سختی سے عمل کیا جائے، انکی خلاف ورزی پر سخت کارروائی ہو اور عوام میں اس کی اہمیت کا شعور اجاگر کیا جائے۔ اسلام آباد میں نئی تعمیر ہونے والی عمارتوں خاص طور کثیر المنزلہ رہائشی عمارتوں میں حفاظتی اقدامات کرنا بے حد ضروری ہے۔ تمام عمارتوں کی تعمیر بلڈنگ کوڈ آف پاکستان کے مطابق زلزلہ مزاحم ہونی چاہیے۔ یعنی بلند عمارتوں کی بنیاد اور اوپری ڈھانچے کے درمیان لچکدار یا جھٹکے جذب کرنے والے مواد نصب کیے جائیں تاکہ زلزلے کے دوران عمارت کی حرکت کم ہو اور نقصان سے بچا جا سکے۔یعنی جدید انجینئرنگ تکنیکوں کا استعمال کیا جائے۔ ہنگامی اخراج کیلئے واضح اور کشادہ راستے، کھلی جگہوں تک آسان رسائی، آگ اور زلزلے کے جھٹکوں کا پتہ لگانے کیلئے الارم اور سینسرز بھی لگائے جا سکتے ہیں۔ یہ بھی ضروری ہے کہ زلزلے کے دوران محفوظ رہنے کیلئے عمارت کے مکینوں اور ملازمین کو ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کی تربیت دی جائے اور ہر عمارت کی ضروریات کے مطابق مؤثر ہنگامی منصوبہ پہلے سے تیار ہو تاکہ خدانخواستہ زلزلے کی صورت میں فوری اور محفوظ اقدامات کیے جا سکیں۔
ہم نقصان اٹھانے کے بعد سنجیدہ ہوتے ہیں، غلطیوں کے بعد کچھ سدھرتے ہیں، اور کسی بڑے بحران کے بعد حفاظتی اقدامات پر غور کرتے ہیں۔ مگر دانش مندی کا تقاضا یہ ہے کہ مستقبل کے ممکنہ خطرات کے حوالے سے اقدامات پہلے ہی کر لیے جائیں۔ ترقی کی رفتار بڑھانے اور سرمایہ کاری کو فروغ دینے کیلئے تعمیراتی قوانین میں نرمی یا اضافہ کرتے ہوئے مستقبل کے ممکنہ خطرات ، ماحولیاتی تحفظ، اور موجود بنیادی ڈھانچے کی استعداد کو مدنظر رکھنا بھی ضروری ہے۔

مزیدخبریں