زرا سوچیئے۔۔۔۔۔

Feb 23, 2025

گلزار ملک

 دولت آنے جانے والی چیز ہے یہ آج میرے پاس ہے کل کسی اور کے پاس ہوتی ہے جس طرح وقت ایک جگہ پر نہیں ٹھہرتا یہ بھی ایک جگہ پر اور ایک شخص کے پاس صدا نہیں ٹھہرتی اسی لیے کہتے ہیں کہ اس سے اتنا پیار نہ کرو کہ کل کو اگر یہ دولت تمہارا ساتھ چھوڑ گئی تو تمہیں زندگی گزارنے میں دقت محسوس نہ ہو کیونکہ جب ایسا وقت آتا ہے تو پھر اپنے بھی ساتھ چھوڑ جاتے ہیں اپنوں میں دوست رشتہ دار سب منہ پھیر لیتے ہیں۔ پھر اپنے آپ کو تسلی دینے کے لیے صرف ایک جملہ کہا جاتا ہے ’’ جے او ویلا نہی ریا تے اے وی نہی رینا ‘‘یعنی اگر وہ اچھا وقت نہیں رہا تو یہ برا وقت بھی گزر جائے گا۔ آج کا کالم ان کے لیے خاص طور پر ہے جو لوگ دولت پر سانپ بن کر بیٹھے ہوئے ہیں اور مزید دولت اکٹھی کرنے کے لیے یہ جانتے ہوئے بھی کہ یہ دنیا فانی ہے ایک دن ہم سب نے اسے چھوڑ چھاڑ کر منو مٹی تلے جا سونا ہے تو پھر اس دنیا میں فریب جھوٹ اور کسی دوسرے کی دل آزاری کیوں؟ بہرحال دولت پر سانپ بن کر نہیں بیٹھنا چاہیے اگر اس دنیا کے سب کچھ کے بارے میں پتہ ہے تو اس دلچسپ تحریر پر زرا غور کر لیں شاید کوئی سمجھ آجائے۔

 ایک ہوٹل میں ایک سیاح داخل ہوا اور مالک سے اس کے ہوٹل کا بہترین کمرہ دکھانے کو کہا مالک نے اسے بہترین کمرے کی چابی دی تو اس سیاح نے کاؤنٹر پر پانچ ہزار روپے کا نوٹ بطور ایڈوانس رکھا اور کمرہ دیکھنے چلا گیا اسی وقت اس قصبے کا قصاب ہوٹل کے مالک سے گوشت کی رقم لینے آگیا ہوٹل کے مالک نے وہی پانچ ہزار روپے کا نوٹ اٹھا کر قصاب کو دے دیا کیونکہ اسے یقین تھا کہ سیاح کو کمرہ ضرور پسند آجائے گا اس قصائی نے پانچ ہزار روپے کا نوٹ لے کر فورا جانور سپلائی کرنے والے کو دے دیا وہ جانور سپلائی کرنے والا شخص ایک ڈاکٹر کا مقروض تھا جس سے وہ علاج کروا رہا تھا تو اس نے وہ پانچ ہزار روپے ڈاکٹر کو دے دیے وہ ڈاکٹر کافی دنوں سے اسی ہوٹل میں مقیم تھا اس لیے اس نے یہی نوٹ ہوٹل کے مالک کو ادا کر دیا وہ پانچ ہزار روپے کا نوٹ کاؤنٹر پر ہی پڑا تھا کہ کمرہ پسند کرنے کے لیے سیڑھیاں چڑھ کر گیا ہوا متوقع گاہک اسی لمحے واپس آگیا اور ہوٹل کے مالک سے کہنے لگا کہ مجھے کمرہ پسند نہیں آیا یہ کہہ کر اس نے اپنا پانچ ہزار روپے کا نوٹ اٹھایا اور چلا گیا۔
 اکنامک کی اس کہانی میں نہ کسی نے کچھ کمایا اور نہ ہی کسی نے کچھ خرچ کیا لیکن جس قصبے میں سیاح یہ نوٹ لے کر آیا تھا اس قصبے کے کتنے ہی لوگ قرضے سے فارغ ہو گئے حاصل مطالعہ یہ ہوا کہ پیسے کو گھماؤ اگر کسی کی ضرورت ہے تو اسے دے کر کسی دوسرے کے کام آؤ نہ کہ اس پر سانپ بن کر بیٹھ جاؤ لہذا اسی میں ہی ہم سب کی بھلائی اور فلاح ہے باوجود اس کے سمجھ نہیں آتی کہ اس دولت کو کمانے اور پھر اس کو بچانے کے لیے ہم ایسا پیسہ کیوں کماتے ہیں جس کی بنیادیں ہم نے جھوٹ فریب اور دھوکے پر قائم کی ہوں اس پر ہم سب کو غور کرنے کی اشد ضرورت ہے۔

مزیدخبریں