فرید پراچہ کا انسداد سود سیمینار سے خطاب ۔۔(۲)

یہ ہمارا موجودہ بینکنگ کا نظام ہے اس کا ہمارے ہاں جو قانون ہے اس میں بھی سود یا انٹرسٹ کا لفظ نہیں ہے۔ لائسنس جب جاری ہوتا ہے اس میں سود اور انٹرسٹ کا لفظ شامل کر دیا جاتا ہے۔ بینک صرف تجارتی قرض نہیں دیتے وہ استعمالی اور صرفی قرض پر بھی سود لیتے ہیں۔ یعنی اگر کوئی مکان بنانے، گاڑی یا ٹریکٹر خریدنے کے لیے بھی قرض لیتا ہے تو اس پر بھی اسے سود دینا پڑتا ہے۔
اسلام نے اس کے بارے میں بالکل مختلف نظام دیا ہے۔ یہ نظام بالکل واضح اور صاف و شفاف ہے۔ یہ پیچ ورک یا متوازی نظام نہیں کہ کنونشنل بینکنگ بھی چلتی رہے۔ سود کے پورے نظام کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ اسلامی بینکنگ میں بھی کسی نہ کسی طور پر انٹرسٹ شامل ہے۔ اس کے تبدیل ہونے سے ہمیں اس کے اثرات بھی معاشرے میں نظر آنا شروع ہو جائیں گے۔
مضاربہ: نبی اکرمؐ حضرت خدیجۃ الکبریٰ ؓکا مال تجارت لے کر جاتے تھے تو یہ مضاربہ کے اصول پر تھا۔ اس کے اوپر آپؐ نے اپنی محنت کا حق وصول کیا۔
حضرت عمرؓ کے دو بیٹے حضرت عبداللہ اور عبیداللہؓ عراق گئے۔ وہاں سے واپس آ رہے تھے تو وہاں کے گورنر حضرت ابو موسیٰ ؓ نے انھیں واپسی پر بیت المال کی رقم دی کہ یہ میں نے مدینہ بھجوانی تھی یہ رقم میں آپ کو قرض کے طور پر دے دیتا ہوں آپ یہاں سے مال خرید لیں وہاں جا کر بیچ دیں اور بیت المال کی رقم جمع کروا دیں۔ حضرت عمرؓ کے علم میں جب آیا تو انہوں نے دوٹوک الفاظ میں باور کرایا کہ میں کسی کو بیت المال کی رقم سے تجارت کی اجازت نہیں دے سکتا۔ اس پر معاملہ شوریٰ کے سامنے گیا، تو شوریٰ نے کہا کہ اس پر مضاربت کا اصول لگتا ہے۔ انھوں نے محنت کی اور رقم بھی بیت المال میں جمع کرا دی لیکن منافع آدھا آدھا ہو گا یعنی آدھا منافع بیت المال اور آدھا محنت کرنے والوں کو ملے گا۔
ایک سوال افراط زر کا پیدا ہوتا ہے کہ انفلیشن ہے اورافراط زر ہو جاتا ہے اس افراط زر اور انفلیشن کو کیسے روکا جائے۔ اسلام ایک مکمل نظام زندگی اور ضابطہ حیات ہے۔ حکم ہے کہ اسلام کے اندر پورے کے پورے داخل ہو جائو۔ جب افراط زر سے بچنے کے شرعی راستے موجود ہیں تو پھر اس کے لیے انسان کیوں کنونشنل بینکنگ سے قرضے لے اور دے اور اس کے اوپر سود لے اور دے۔ افراط زر کا تعین ممکن نہیں یہ مختلف اوقات میں مختلف ہوتا ہے۔ اس میں مقروض کی کوئی کوتاہی بھی نہیں ہے۔ افراط زر اس نے پیدا نہیں کیا۔ اس کو تو دوہرا نقصان ہوتا ہے۔ ایک اس کی رقم کم ہو جاتی ہے اور پھر سود بھی دینا پڑتا ہے۔
سود مکمل طور پر حرام ہے۔
اعلان جنگ ہے اللہ اور رسولؐ کے خلاف۔
سخت ترین وعید ہے۔
عبادت اور دعائیں قبول نہیں ہوتیں۔
ہم حیلے بہانوں سے اس کو جاری نہیں رکھ سکتے اور نہ کسی بھی شکل میں اسے قبول کر سکتے ہیں۔
انفلیشن کے نام پر اس کو درست قرار نہیں دیا جا سکتا۔ یہ دیکھیں کہ اور راستے کیا ہیں؟ اللہ تعالیٰ نے اتنا سخت حکم دیا ہے کیا اس کے سامنے کوئی اور راستہ موجود نہیں تھا۔ کیا سارے مسلمان ایک بندگلی میں چلے جاتے کہ ان کے پاس سود لینے اور دینے کے علاوہ کوئی راستہ نہ بچتا۔ جس حکیم ذات نے یہ ہمیں پورا سسٹم دیا ہے اس نے اس کے لیے بھی دوسرے راستے نکالے ہیں۔ اسی لیے اس نے سود کے خلاف اتنا سخت حکم دیا ہے۔ آج سود کی وجہ سے ہماری معیشت تباہ ہے۔
حضرت قائداعظمؒ نے 1948ء میں سٹیٹ بینک کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ مغرب کا معاشی نظام ناکام ہو چکا ہے۔ دنیا کو دکھ درد کے سوا اس نے کچھ نہیں دیا۔ میں اپنے ماہرین معیشت سے یہ کہوں گا کہ اسلام کے اصولوں کے مطابق ایک نیا معاشی نظام تشکیل دیا جائے۔ اسی طرح سے قرارداد مقاصد، 31علما کے 22نکات، 56کے آئین میں اور ایوب خان کے زمانے میں بننے والی اسلامی مشاورتی کونسل، 73کے آئین کے مطابق بننے والی اسلامی نظریاتی کونسل سب نے سود کو حرام قراردیا۔ 73کے آئین کے آرٹیکل 38F میں بھی جلد از جلد سود کو ختم کرنے کی بات کی گئی۔ پھر 1991ء میں وفاقی شرعی عدالت نے سود کے خاتمہ کے لیے تفصیلی فیصلہ دیا اور حکومت کو قوانین تبدیل کرنے کے لیے چھ ماہ کی مدت دی۔
1999ء میں سپریم کورٹ کے شریعت بنچ نے بنکوں کے سود اور انٹرسٹ کو حرام قرار دے کر حکومت کو 31مارچ 2001ء کی حتمی مدت دی کہ وہ سودی معیشت کو ختم کر دے اور سود پر مکمل پابندی لگائے۔ اگر حکومت نے قوانین تبدیل نہ کیے تو یہ خودبخود ختم ہو جائیں گے۔ گویا کہ گنجائش کوئی نہیں ہے صرف نیت کا مسئلہ ہے۔ ہم مدینہ کی ریاست کا نام بھی لیں اور پھر سود کا کاروبار بھی جاری رکھیں۔ برکتیں نہیں آ سکتیں۔ میں اللہ تبارک و تعالیٰ کے دو احکامات سنا کر اپنی بات ختم کرتا ہوں۔ ایک یہ کہ جو میرے ذکر سے میرے حکم سے پہلو تہی کرے گا میں اس کی معیشت تنگ کر دوں گا۔ اور پھر اس کا حل بھی قرآن پاک نے بتایا کہ ’’یہ بستیوں والے ایمان لائیں اور تقویٰ کی روش اختیار کریں تو ہم ان پر زمینوں اور آسمان کی برکتوں کے دروازے کھول دیں گے۔
ہمارا یہ ایمان ہے کہ سود سے ہم اپنے آپ کو الگ کریں گے تو زمین و آسمان کی برکتوں کے دروازے ان شاء اللہ ضرور ہم پر کھلیں گے۔(ختم شد)
٭…٭…٭