واسکٹ سے اچکن تک

گزشتہ ہفتے پی ای سی ایچ ایس(کراچی)میںفیروزآباد تھانے کے قریب واقع یونین کوآپریٹیو کلب نے ایک مزاحیہ مشاعرے کا اہتمام کیا جس میں کراچی،حیدرآباد اور میرپور خاص کے سینیر مزاح گو تشریف لائے تھے۔کراچی کی ایک شاعرہ بھی شریک بزم تھیں۔چونکہ پاکستان میں کوئی کام میرٹ پر نہیں ہوتا اس لیے مشاعرے کی صدارت کی ذمے داری ہمارے دوست اور مشاعرے کے روح ورواں جناب محمود احمد خان نے بہ اصرارہمیں سونپ دی۔مشاعرے کے اختتام پرہم نے جو خطبۂ صدارت حاضرین کی سماعتوں کی نذرکیا اس میں قارئین کو شریک کررہے ہیں۔ہم نے سب سے پہلے محموداحمد خان،کلب کے صدر معروف تجارتی اور سماجی شخصیت شمیم فرپو اور کلب کی انتظامیہ کو مبارک باد پیش کی جنھوں نے اتنے پُر آشوب ماحول میں مزاحیہ مشاعرہ منعقد کرکے یہ پیغام دیا کہ ع ’’کرونا‘‘ سے دبنے والے اے آسماں نہیں ہم۔پھرہم نے شعرا کو مبارک باددی کہ وہ کئی گھنٹے کرونا کی چھاتی پرمُونگ دلتے رہے۔ہم نے حاضرین کی ہمت کو بھی سراہا جو تمام چیلنجوں کا مقابلہ کرتے ہوئے کلب میں مشاعرہ سننے پہنچے۔ہماراکہنا تھا کہ مشاعرہ بہت اچھا رہا اور ہونا بھی چاہیے تھا،تھانے کے زیرِ سایہ جو منعقد ہوا ہے۔ہم دانشور لوگ ادب میں جموداور ادب کے معیار کی بحثوں میں الجھے رہتے ہیں۔محموداحمد خان نے تھانے کے پڑوس میں مشاعرہ کرکے اس مسئلے کاقابلِ عمل حل تلاش کرلیا ہے۔1970ئ کے عشرے میں (جب پاکستان میں بھی فلمیں بنا کرتی تھیں) تولاہورمیںاس موضوع پر ایک سیمینار منعقد ہوا کہ پاکستانی فلموں کا معیار کس طرح بلند کیا جائے؟جیساکہ دستور ہے،طویل مقالات پڑھے گئے اور بڑی دُوراَزکار تجاویز پیش کی گئیںلیکن ایک ’’بہت فاضل ‘‘مقررنے صرف ایک جملہ ادا کیا اور میلہ لُوٹ لیا۔انھوں نے کہا’’پاکستانی فلموں کا معیار بلند کرنے کا واحد طریقہ اب یہ رہ گیا ہے کہ شوٹنگ کیمرے کے بجائے بندوق سے کی جائے۔‘‘صاحب،مجھے یہ مشاعرہ بہت مہنگاپڑا ،یعنی مالی طور پر۔اس کے لیے میں نے اپنی پرسنالیٹی بنانے کی خاطر ایک عدد شیروانی سلوائی ہے اورایک عدد جناح کیپ خریدی ہے جو آپ دیکھ رہے ہیں۔میں چاہتا تھا کہ میں صدر لگوں...لوگ مجھے سیلیکٹڈ صدر نہ کہیں۔میں نے سب سے پہلے 26اپریل1991ئ کو ایک مزاحیہ مشاعرے کی صدارت کی تھی جس میں حضرتِ دلاور فگارمہمانِ خصوصی تھے۔یہ مشاعرہ منشیات کے خلاف برسرِ پیکار ایک مجاہد ڈاکٹر سلیم اعظم کی ’’پاکستان سوسائٹی‘‘ کے تحت منعقد کیا گیا تھا۔ ڈاکٹر سلیم اعظم کے والد جناب اعظم کریوی(مرحوم) اردو کے کلاسیکی افسانوی ادب کا ایک نہایت معتبر نام ہے۔میں صدارت کے لیے بڑی مشکل سے راضی ہوا تھااور اس کی ایک ٹیکنیکل وجہ تھی۔وہ یہ کہ میں کسی بھی زاویے سے صدر نظر نہیں آتا(نہ پہلے ،نہ اب)۔عمر بھی اُس وقت اتنی زیادہ نہیں تھی اور جسامت آج کے مقابلے میں حقیر تر تھی۔جب ڈاکٹر سلیم اعظم، بضد رہے تو اپنی پرسنالیٹی کے فروغ کی غرض سے میں نے ایک واسکٹ سلوائی کیونکہ شیروانی اُس وقت’’افورڈ‘‘نہیں کرسکتا تھا۔وہاں میں نے ایک مضمون پڑھا جس کا عنوان تھا__’’صدر کی صدری‘‘۔پرسنالیٹی بنانے کا گُر مجھے سابقہ مشرقی پاکستان کی فلم’’تلاش‘‘ سے معلوم ہوا تھا۔اُس فلم کے ہیرورحمن کا ایک دبلا پتلا اور پست قامت کامیڈین دوست ہوتا ہے جو ایک بغیر آستینوں کے بنیان اور تہمد میں ملبوس رہتا ہے لیکن ہاتھ میں اپنے قد سے بڑے سائز کی چھڑی رکھتا ہے۔ایک مرتبہ اُس کادوست یعنی ہیرو اُس سے پوچھتا ہے’’یار،تُو ہر وقت یہ چھڑی اپنے ہاتھ میںکیوں رکھتا ہے؟‘‘کامیڈین بڑے اسٹائل سے جواب دیتا ہے’’بس یوں ہی ذرا پرسنالیٹی بنا نے کے لیے۔‘‘آج جب میں اس حلیے میں گھر سے نکل رہا تھا (جس میں آپ مجھے پہلی بار دیکھ رہے ہیں)تو بیگم نے کہا’’پورے صدر بنو۔ایک چیز رہ گئی ہے۔‘‘یہ کہہ کر انھوں نے پان کا بیڑہ میری طرف بڑھا دیا۔میں نے اُن سے کہا’’پان تومیں محمود خان سے لے لوں گا،آپ میری طرف سے آج یہ ایک اضافی کھالیں۔مجھے اس کا احساس ہی تقویت بخشتا رہے گا۔‘‘یہاںآتے وقت میں سوچ رہا تھا کہ شاعروں کے معاشی حالات دگرگوں ہیں۔شاعری میں پیسہ نہیں اور شایداسی لیے بعض شعرا اس پر کماحقٗہ محنت نہیں کرتے۔ایک صاحب اپنی تازہ ترین غزل لے کر ایک ایڈیٹر سے ملے۔ایڈیٹر نے غزل پر ایک نظر ڈال کرکہا’’آپ کی رائٹنگ عجیب ہے،ایک لفظ بھی نہیں پڑھا جارہا۔آپ اسے کمپوز نہیں کرسکتے؟‘‘شاعر نے تُرکی بہ تُرکی جواب دیا’’ایڈیٹر صاحب،اگر میں کمپوزنگ جانتا تو اسے اپنے ہاتھ سے لکھنے میں وقت کیوں برباد کرتا؟‘‘یہ واقعہ آپ نے بھی سُنا ہوگا کہ دو دوست بہت عرصے بعد ایک تقریب میں ملے۔ایک نے دوسرے سے پوچھا’’تمھارے بیٹے آج کل کیا کررہے ہیں؟‘‘دوسرے نے جواب دیا ’’ماشائَ اﷲبڑا بیٹا ایک مشہور افسانہ
نگار ہے۔اُس کی چوتھی کتاب حال ہی میں شائع ہوئی ہیں۔منجھلا معروف شاعر ہے جو پانچ مجموعے لاچکا ہے۔ان دونوں کے باعث معاشرے میںمیری بہت عزت ہے۔یہ کہہ کر وہ خاموش ہوگئے تو پہلے نے پوچھا ’’تم نے چھوٹے بیٹے کے بارے میں نہیں بتایا کہ وہ کیا کررہا ہے؟‘‘وہ صاحب جھینپتے ہوئے بولے ’’کچھ نہ پوچھویار__اُس نے میری لٹیا ڈبودی ہے...کم بخت رکشہ چلاتا ہے۔‘‘پہلے نے مشورہ دیا’’تو نکالو اُسے گھر سے۔‘‘انھوں نے جواب دیا’’ کیسے نکال دوں__گھر بھی تو وہی چلاتا ہے۔‘‘یقین جانیے یہ صورتِ حال بین الاقوامی ہے۔میں نے ایک کتاب میں پڑھا کہ نامور فرانسیسی شاعرسینٹ فوئکس (Saint Foix)ایک حجام کی دکان پر شیو بنوارہاتھا کہ اُس کا ایک قرض خواہ وہاں آگیا اور اُس سے بدتمیزی کرنے لگا۔ فوئکس نے اُس سے کہا’’کیا تم مجھے شیو کرانے کی مہلت دو گے؟‘‘وہ شخص راضی ہوگیا۔فوئکس نے حجام اور دوسرے لوگوں کو اس زبانی معاہدے پرگواہ بنایا اور پھر اپنے آدھے چہرے پر لگے صابن کوتولیے سے صاف کرکے باہر نکل گیا۔اُس نے زندگی بھر کے لیے ڈاڑھی رکھ لی۔بات معیار کی ہورہی تھی۔ ایک نو آموز شاعر نے اپنی نظم ڈاک سے کسی ادبی جریدے میں بھیجی۔نظم کا عنوان تھا’’میں کیوں زندہ ہوں؟‘‘کچھ عرصے بعد اُس نے ایڈیٹر کو فون کرکے دریافت کیا کہ میری نظم’’میں کیوں زندہ ہوں؟‘‘کا کیا بنا؟ایڈیٹر نے جواب دیا’’تم اس لیے زندہ ہو کہ تم نے وہ نظم ڈاک سے بھیجی تھی۔‘‘سامعین کرام،کلام کا معیار اُونچا نیچا ہوتا رہتا ہے لیکن اس میںشک نہیں کہ آج اچھی شاعری سننے کو ملی۔تاہم معیار کو اوربلند کرنا ہے تو میں اپنے دوست محمود احمد خان کو مشورہ دوں گا کہ اگلا مشاعرہ رینجرز ہیڈکوارٹر زمیں منعقد کروائیں۔