پیٹھ میں چھرا

پاکستان میں سینیٹ کے انتخابات نے بقول انگریزی کے ایک محاورے کے پینڈورا کا بکسا کھول دیا ہے۔اس کی ابتدا اصل میں حکمراں جماعت کی طرف سے ہوئی جس کے احساس عدم تحفظ نے اسے مجبور کردیا کہ وہ کسی طرح سے سینیٹ کے انتخابات میںیہ جان سکے کہ کس نے کس کو ووٹ دیا اور گویا اس طرح سے اپنے اور اپنی شراکت دارپارٹیوں کے ممبران اسمبلی کے ووٹوں کا تحفظ کرسکے۔حکومت نے مطالبہ کر دیا کہ سینیٹ کے انتخابات میں ووٹنگ خفیہ ہونے کے بجائے کھلے عام ہو یعنی سب کو معلوم ہوسکے کہ کس نے کس کو ووٹ دیا۔ایک تو اس قسم کے مطالبے سے حکمرانوں اور ان کے وزیروں سفیروں اور خیر خواہوں کی فوج ظفر موج کی اہلیت کا بھانڈہ پھوٹ گیا اور اندازہ ہوا کہ ان میں سے کوئی بھی کسی بھی حکومتی یا پارلیمانی قانون اور قوائد و ضوابط سے آگاہ نہیں اور ان کا واحد طرہ امتیاز حزب اختلاف کی کردار کشی اور ان پر بے سروپا الزام لگانا ہے۔ اگر ان میں سے کسی کو بھی کچھ ذرا سی بھی آگاہی ہوتی تو وہ یہ جانتے کہ سینیٹ کا جو طریقہ کار ہے اس میں کھلم کھلا ووٹ دینے کی کوئی گنجائش نہیں۔ ان انتخابات میں ایک ممبر تین چار لوگوں کوووٹ ڈال سکتا ہے اور ہر ووٹ کا ایک درجہ ہے جیسے کسی کو پہلی پسند قرار دینا پھر کسی اور کو دوسری پسند اور اس طرح مختلف امیدواروں کے بارے میں پسند کے مختلف درجوں کی نشاندہی کرنا۔اب پہلے مرحلے میں تو پہلی پسند کے ووٹوں کی گنتی ہوجائے گی اور جو اس میں سے صاف نکل گیا وہ منتخب ہوگیا۔ اب جو کچھ ووٹوں سے رہ گیا تو دیکھا جائے گا کہ دوسری پسند کے اظہار میں اس کا نام کس کس نے لیا ہے اور اس طرح جس کے پاس دوسری پسند کے مطلوبہ ووٹ مل جائیں گے وہ بھی سینیٹر بن جائے گا۔ اب تیسری پسند اورچوتھی پسند کی بھی گنتی ہوگی اور ان کا وزن بھی شمار کیا جائے گا۔میں نے ۷۰ کی دہائی میں سندھ اسمبلی میں قائد حزب اختلاف کے ساتھ کام کیا ہے اور میں جانتا ہوں کہ یہ کتنا مشکل عمل ہے جس کے لئے اس زمانے میں ہمارے عزیز دوست شہید ظہورالحسن بھوپالی حزب اختلاف کے ممبران کو باقاعدہ ٹریننگ دیتے تھے اور سارا سارا دن ممبران مشق کرتے تھے کہ کس نے کس کو کس نمبر پر پسند کا ووٹ دینا ہے کیونکہ ذرا سی غلطی کسی سیاسی مخالف کو فائدہ پہنچا سکتی ہے اور ذرا سی ہوشیاری توقع سے ذیادہ سیٹیںجتوا سکتی ہے۔یہ تو ہوگیا اس لاعلمی کا ذکر جس سے حکمراں جماعت کی ایک اور میدان میں نا اہلی اور کم علمی عیاں ہو رہی ہے۔ اب ذرا اس بات پر بھی غور ہوجائے کہ کیا ممبران کو واقعی اس اختیار سے محروم کردیا جائے کہ وہ اپنی پسند سے ووٹ دیں۔ یہ پارٹی سے وفاداری اور اس کے کرتا دھرتائوں کے مشورے پر آنکھ بند کرکے ووٹ دینے کا عمل کیا واقعی جمہوری اقدار کا فروغ ہے یا اس قانون سے ممبران اسمبلی کی حیثیت بھیڑ بکریوں سے زیادہ نہیں جسے چرواہا جب چاہے جس کو چاہے بیچ دے۔حکمران ملکی معیشت کا بیڑہ غرق کردیں اور دو تین سال اپنے ہی منتخب نمائندوں کو نظر انداز کرکے در آمد شدہ دوستوں اور خوشامدیوں کو اہم عہدوں پر فائز کردیں اور وزیر اعظم ہائوس منتخب ممبران کے مشوروں اور ہدایات کے بجائے خوشامدیوں کی چو پال بن جائے اور جب کوئی اہم موقع آئے جس میں نظر انداز کئے ہوئے ممبران اسمبلی اپنی ناراضگی کا اظہار کرسکیں تو ان کے سر پر نا اہلی کی تلوار لٹک رہی ہو۔بنایا گیا تو یہ قانون اسی مفروضے پر کہ اس سے گھڑ تجارت کو روکا جا سکے گا مگر اس کا نتیجہ تو بس یہ ہوا کہ ممبران اسمبلی جنہیں اپنے ضمیر کی آواز پر فیصلے کرنے چاہئیں وہ اب مجبور ہیں کہ پارٹی کے سربراہ کی ہدایت پرآنکھیں بند کرکے ایسے اشخاص کو بھی ووٹ دیں جن کی ملک اور پارٹی کے لئے کوئی خدمات نہیں سوائے اس کے کہ وہ جھوٹ بول کر پچھلی دفعہ پارٹی کا ٹکٹ حاصل کر چکے تھے اور اب یہ راز فاش ہونے کے بعد اپنی اسمبلی کی سیٹ سے محروم ہونے والے ہیں۔بجائے اس کے کہ قانون کو اپنا راستہ چلنے دیں پارٹی کا سربراہ قانون کو ہی شکست دینے پر تلا ہوا ہے کہ کیا ہوا جو قومی اسمبلی کی سیٹ سے میرے پیارے کو چلتا کیا میں ان کو ان تابعدار ممبران اسمبلی کی پیٹھ پر بٹھا کر سینیٹ میں لے آئونگا۔اس قانون نے شاید ممبران کو اپنا ووٹ بیچنے سے روک دیا ہو مگر اس پارٹی کے سربراہ کے خلاف کون کارروائی کرے گا جو ان ووٹوں کو ملک یا پارٹی کے مفاد میں نہیں اپنی پرانی دوستیاں نبھانے کے لئے استعمال کررہا ہے۔یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پاکستان میں سینیٹ کے انتخابات میں کئی بار گھڑ تجارت ہوئی ہے مگر اس کا یہ حل تو نہیں کہ سارے ممبران کو کسی ایک شخص کے حکم کے تابع کر دیا جائے۔ اگر گھڑ تجارت کے ابتدائی دنوں میں ہی اس میں ملوث افراد کو کڑی سزائیں دی جاتیں اور ان پر اور ان سے منسلک دوسرے افراد پر تا حیات سیاست میں حصہ لینے پر پابندی لگائی جاتی تو اس قانون کی ضرورت ہی نہیں رہتی۔ اس وقت بھی ایک ویڈیو گردش کررہی ہے جس میں سیاسی لوگ بہتی گنگا میں نہا رہے ہیں۔یہ ہر چینل پر چل گئی مگر کسی کے کان پر جوں نہیں رینگی۔ اگر خان صاحب کو گھڑ تجارت سے اتنی ہی نفرت ہے تو فوری طور پر اس میں نظر آنے والے حضرات کو عبرتناک سزائیں دیں تاکہ مستقبل میں کوئی اس قسم کی حرکت کی جرائت ہی نہ کرے مگر کیا کریں کہ اس حمام میں سب برہنہ ہیں اور سب جانتے ہیں کہ آج نہیں تو کل ہم بھی اس تجارت سے فیضیاب ہوسکتے ہیں۔موجودہ قانون کے تحت ممبران اسمبلی کی کوئی حیثیت نہیں اور وہ کسی بھی صورت میں اپنی پارٹی کی قیادت پر کوئی دبائو نہیں ڈال سکتے کیوں کے جب وہ ووٹ اپنی مرضی سے نہیں دے سکتے تو ان کی کسی کی نظر میں کیا افادیت رہ جاتی ہے۔اگر پوری دنیا پر نظر ڈالیں
تو اس قسم کے قوانین نہ تو امریکہ یا کینیڈا یا یورپی یونین میں ہیں اور جن ملکوں میں ہیں ان میںقانون میں اس بات کی گنجائش ہے کہ کچھ معاملات پر ضمیر کے مطابق ووٹ کی بھی گنجائش ہوتی ہے اور جیسے برطانوی پارلیمان میں کئی بارمخلوط حکومت بنانے کے لئے اجازت دی جاتی ہے کہ دوسری پارٹی کے لوگوں کو ووٹ دیا جاسکے۔ امریکہ میں تو سرے سے ایسی کوئی پابندی ہی نہیں اور حال ہی میں ڈونلڈ ٹرمپ کے مواخذے کی تحریک میں ان کے ساتھیوں نے بھی ان کے خلاف نہ صرف ووٹ دیا بلکہ تقاریر بھی کیں۔ کینیڈا میں بھی اس قسم کی کوئی پابندی نہیں۔ یہ سب اس لئے کہ ان ممالک میں گھڑ تجارت ہو ہی نہیں سکتی۔ ہو تو ہمارے ملک میں بھی نہیں سکتی کیونکہ کسی بھی ادارے کے لئے کروڑوں روپے کے لین دین کا کھوج لگانا کونسی مشکل بات ہے اور یہاں تو ویڈیو بھی بن رہی ہوتی ہے تو پھر دینے والا اور لینے والا سب سامنے آجاتے ہیں مگر جو اس نظام کے ساتھ کھلواڑ جاری رکھنا چاہتے ہیں ان کے کانوں پر جوں نہیں رینگتی۔ یہ دنیا کا شاید واحد ملک ہے جس میں رشوت لینے اور دینے کے تمام ثبوت میڈیا میں آجاتے ہیں اوربچے بچے کو معلوم ہوتا ہے کہ کس نے لیا اور کس نے دیا مگر کسی کے خلاف کارروائی نہیں ہوتی۔ اب خان صاحب اس کا حل یہ نکال کر لائے ہیں کہ سینیٹ کے انتخابات میں سب جان سکیں کہ کس نے کس کو ووٹ دیا۔یہ سب اس لئے ہورہا ہے اور حکمراں جماعت کی رات کی نیندیں اس لئے حرام ہورہی ہیں کہ پارٹی میں اندرونی طور پر بغاوت شروع ہوچکی ہے اور پارٹی کے نظریاتی ممبران اب یہ سب برداشت کرنے پر تیار نہیں۔ کیا زمانہ تھا کہ عام آدمی گھنٹوں لائن میں لگ کر بلے پر مہر لگانے کی سعادت حاصل کرنا چاہتا تھا اور اب یہ حال ہے کہ پارٹی کو یہ بھی یقین نہیں کہ اس کے ٹکٹ پر منتخب ہونے والے یا اس کے ساتھ دوسری پارٹیوں کے جو لوگ اختیارات کے مزے لوٹتے رہے وہ اس نازک انتخاب میں اس کے ساتھ کھڑے ہونگے یا اس کی پیٹھ میں چھراگھونپیں گے۔