دیارِغیر میں

دیارِغیر میں اک بے کلی محسوس ہوتی ہے
مجھے حبسِ قفس میں زندگی محسوس ہوتی ہے
میں داغِ دل جلا کر چل پڑا ہوں جانبِ صحرا
سرِ دشتِ تمنّا روشنی محسوس ہوتی ہے
یہ کس نے ہاتھ رکھّا مسکرا کر میرے سینے پر
دلِ مْردہ میں پھر سے زندگی محسوس ہوتی ہے
مجھے ڈسنے لگی ہے پھر سے شامِ غم کی تنہائی
مجھے پھر زندگی میں کْچھ کمی محسوس ہوتی ہے
کسی کی یاد میں آنکھیں ہیں مثلِ جْوے خوں بہتی
جو دل کو لگ گئی وہ دل لگی محسوس ہوتی ہے
نگاہِ شوخ سے اْس کی مجھے رغبت نہ ہو کیوں کر
مجھے تو چشمِ نم بھی شبنمی محسوس ہوتی ہے
جسے ہم مسکرا کر درگذر کرتے رہے برسوں
وہ اْس کی بے رْخی اب جعفری محسوس ہوتی ہے
ڈاکٹر مقصود جعفری