یادیں اور باتیں
بڑے بھائی مرحوم راجہ محمد بشارت کے پاس لالہ موسی قیام پذیر تھا یہیں سے میٹرک کا امتحان پاس کیا ،بھائی جان نے صلاح مشورہ کرکے گورنمنٹ انٹر کالج جہلم ایف ایس سی میں داخلہ کروا دیا ۔ فائدہ یہ تھا کہ یہاںہاسٹل میں بھی کمرہ مل گیا ۔ روٹین میں پڑھائی شروع ہو گئی ۔ ہفتہ کی شام ایک بار لالہ موسیٰ اوردوسری بار والدین سے ملنے گائوں چلا جاتا ۔ فرسٹ ائیر کے بعد ہاسٹل میں ہی کمرے اور ساتھی بدل جاتے تھے۔ ہم ایک کمرے میں چار لڑکے رہتے ۔ اب کی بار ایک کلاس فیلو عرفان مرزا ساتھی تھے۔ رفتہ رفتہ بے تکلفی بڑھنے لگی ۔ عرفان کے والد پولی ٹیکنیک انسٹیٹیوٹ رسول میں ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ سول تھے۔ بعد میں وہ پرنسپل ہو کر فیصل آباد اور نوکری کے آخری حصہ میں سیکرٹری بن کر لاہور آئے اور پھر ماڈل ٹائون ایکسٹیشن میں مستقل قیام پذیر ہو گئے ۔ اس طرح کبھی کبھار میں عرفان کے پاس رسول چلا جاتا اور وہ میرے پاس لالہ موسیٰ آجاتے ۔ گویا اس طرح ہماری گھر والوں سے بھی آشنائی شروع ہو گئی ۔ اسی دوران عرفان کے بڑے بھائی رضوان مرزا بھی اسی کالج میں داخل ہو گئے اور یوں تعلقات میں مزید پختگی آتی گئی ۔ ہم دونوں دو مضامین کی ٹیوشن بھی اکٹھے پڑھتے ۔ پروفیسر ریاض صاحب کیمسٹری اور پروفیسر محفوظ صاحب فزکس پڑھاتے ، میں ایک ایورج اور عرفان ایکسٹرا ایورج طالب علم تھا ،اس طرح اس کے ان دونوں پروفیسر صاحبان سے زیادہ محبت تھی اور عرفان ابھی بھی ملنااور کچھ وقت ان کے ساتھ گزارنا اعزاز سمجھتے ہیں ۔ اسی دوران میں نے صدر سائنس سوسائٹی کا انتخاب لڑنا چاہا۔ عرفان کی رہنمائی اور مدد ہمارے ساتھ تھی۔ عرفان کی ہینڈ رائٹنگ بہت عمدہ تھی اس نے ہمارے پوسٹرز (راجہ آگیا میدان وچ ، ہے جمالو ) کالج میں جگہ جگہ لگائے ۔ اللہ نے کامیابی عطاکی ۔ اس طرح ہماری ’’پھوں پھاں ‘‘ میں خاطر خواہ اضافہ ہو گیا ۔ بعد میںہم زمیندار ڈگری کالج گجرات کی سٹوڈنٹس یونین کے سربراہ بن گئے۔طلباء سیاست میں بھرپور کردار ادا کیا مگر عملا اس میںاہم رول عرفان مرزا کا ہی تھا۔ فائنل امتحان ہو گئے ۔ نتائج بھی آگئے جو روز روشن کی طرح عیاں تھے۔ یعنی عرفان کو قائداعظم میڈیکل کالج بہاولپور میں داخلہ مل گیا اور ہم بی ایس سی کرنے گجرات چلے گئے۔ اب چونکہ فاصلہ بہت زیادہ تھا اس لیے زیادہ انحصار خط و کتابت پر ہوتا۔ کبھی کبھار چھٹیوں میں ملاقات ہو جاتی ۔ بی ایس سی کے بعد مجھے ایک میڈیسن کمپنی ایس کے اینڈ ایف میں نوکری مل گئی اور پہلی پوسٹنگ سرگودہا میں ہو ئی ۔ مرزا صاحب پہلے بھی بہاولپور آنے کی دعوت دیتے۔ مگر اب چونکہ میں کمائو پتر تھا اس لیے کوئی مسئلہ نہ تھا۔ بالاخر ایک دن ہم بہاولپور کے ریلوے سٹیشن پہنچ گئے ۔ عرفان اپنے چند دوستوں کے ہمراہ ہمیںلے کرہاسٹل پہنچ گئے اس طرح پہلی بار ان کے کلاس فیلوز ، وحیدرندھاوا، شاہد سلیم اور ارشد گردیزی سے ملاقات ہوئی ۔ یہ سارے دوست بے حد خوش مزاج ،ہنس مکھ اورملنسار تھے ۔ چند ہی لمحوں میں ایسا تھا کہ نہ جانے ہم کتنے پرانے اور بے تکلف دوست ہوں ۔ دو چار دن ہم نے خوب انجوائے کیا ۔ اس دوران ہمیں بہاولپورکے مشہورپارک لال سہانرا کی سیر کا موقع بھی ملا ۔ میڈیسن کمپنیاں بے شمار فری سیمپلز اور تحفے تحائف دیا کرتیں ۔ ہم اپنے ساتھیوں کے لیے معقول حصہ رکھتے ۔ اس طرح ہماری اچھی خاصی ’’ٹہور‘‘ تھی میرا تبادلہ اپنے ہوم سٹیشن راولپنڈی میں ہوگیا۔ اس دوران یہ ساتھی ایک اور دوست سہیل مختار کے ساتھ نادرن ایریاز کی سیر پر آئے اور راولپنڈی میرے پاس قیام فرمایا ۔ وقت گزرتا رہا اور عرفان کی وجہ سے حلقہ احباب بھی بڑھ گیا۔1982 ء میں میری شادی پر یہ سب دوست تشریف لائے اور خوب رونق جمائی۔ ان کی شرکت اس قدرپرخلوص تھی کہ ہر کوئی ان کے بارے دلچسپی سے پوچھتا ۔ یہ زمانہ سادگی کا تھا، ایک کمرے میں تین چار مہمان ، ایک باتھ روم ۔ بعد میں ان سب دوستوں کی میرے سسرالیوں سے بھی اچھی خاصی بے تکلفی ہو گئی ۔ اورجب ان لوگوںکا راولپنڈی آنا ہوتا میرے دونوں گھروں میں ان کی خوب آئو بھگت ہوتی۔ ایم بی بی ایس کے بعد اپنی اپنی ہائوس جاب شروع ہو گئی ۔ عرفان مرزا نے نوزائیدہ بچوں کی سرجری ۔ وحید رندھاوا نے جلد ، ارشد گردیزی نے پتھیالوجی ،سہیل مختار نے آئی اور شاہد سلیم نے میڈیکل کے شعبوں کاانتخاب کیا ۔ وحید فوج میں بھی چلے گئے ۔ اب اللہ کے فضل و کرم سے ڈاکٹر عرفان مرزا نوزائیدہ بچوں کے نامور سرجن ( انہوںنے ایف سی پی ایس پارٹ ون اور پارٹ ٹو پہلی کوشش میں پاس کیا تھا) ۔ ارشد گردیزی جنہیں پورا نام جناب ڈاکٹر سید محمد ارشد اقبال گردیزی سن کربہت مسرت حاصل ہوتی ہے ۔ انکی بہاولپور میں سب سے بڑی پتھیالوجی لیب ، ڈاکٹر کرنل عبدالوحید رندھاوا گوجرانوالہ کے مشہور سکن سپشلسٹ ، ڈاکٹر شاہد سلیم ل واہ کینٹ کے سب سے بڑے میڈیکل سپشلسٹ اورکارڈیالوجسٹ ہیں ڈاکٹر سہیل مختار احمد نے ساتھ کاروبار شروع کردیا ۔ اس وقت ان کا شمار ایمبولینس بنانے والی مشہور کاروباری شخصیات میں ہوتا ہے ۔ اور انکے بیرون ممالک میں بھی دفاتر ہیں ۔2/3 سال قبل ڈاکٹر عرفان مرزا کو وزارت صحت سعودی عرب میںنوکری مل گئی چنانچہ یہ تقریبا گیارہ ماہ وہاں اور ایک ماہ پاکستان میں ہوتے ہیں۔جب یہاں ہوں تو ملاقات ضرور ہوتی ہے ۔ دو تین دن پہلے واٹس ایپ میں ایک نئے گروپ( میرے یار ) کو دیکھا تو معلوم ہوا کہ ڈاکٹرعرفان مرزا صاحب نے اس گروپ کو تشکیل دیا ہے اور تقریبا سب دوستوں کو اس میں شامل کیا ہے ۔ اس تیز ترین زندگی کہ جس میں ہر کوئی اپنی مصروفیات میں گھراہوا ہے کو ایک جگہ اکٹھا کرکے ڈاکٹرعرفان مرزا نے نہایت احسن قدم اٹھایا ہے ۔ ایک بار پھر ہم تواتر سے ایک دوسرے کے ساتھ منسلک رہیں گے۔ سوشل میڈیا کے کچھ نقصانات بھی ہیں ۔ مگر فوائد سے بھی انکار نہیں۔ سینٹ انتخابات سرپر ہیں۔ امیدوار ووٹ کے لیے نت نئے طریقے استعمال کررہے ہیں۔ پچھلے کالم میں میں نے اسلام آباد کی نشست پر اپنا تجزیہ پیش کیا تھا ۔ اب بھی میں اپنے موقف پر قائم ہوں کہ یوسف رضا گیلانی کیلئے انتخاب جیتنابہت مشکل ہے۔ دوسری طرف اگر جسٹس قاضی فائز عیسی کا سپریم کورٹ کی طرف سے دئیے گئے فیصلے پر خط غور سے پڑھیں تو شاید یوں گمان ہوتا ہے کہ ہم سب قانون سے نابلد ہیں۔ ایسے حالات میں ڈاکٹر عرفان مرزا صاحب اور ان کے بنائے گروپ ’’میرے یار‘‘ میرے لیے زیادہ اہمیت کاحامل ہے کہ جس میں ایک بار پھر سب دوستوں کو اکٹھا کر دیا واقعی اچھے دوست زندگی کا سب سے بڑا سرمایہ ہوتے ہیں۔تھینک یو ڈاکٹرصاحب !