بین الاقوامی اہمیت کا حامل،پاک افغان بارڈر طورخم

پاک افغان بارڈر طورخم بین الاقوامی اہمیت کا حامل سرحد اس لئے گردانا جاتا ہے کہ اس کے زریعے افغانستان کے ساتھ تجارت کیا جاتاہے افغان ٹرانزٹ کے علاوہ برامدات اور درامدات اس دوطرفہ تجارت کے اہم پہلو ہیں۔ طورخم کے زریعے پاکستان کا سامان وسطی ایشیائی ممالک کی منڈیوں تک پہنچایاجاتا ہے اور یہی برآمدات ملک کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے جس سے نہ صرف اقتصاد مظبوط ہوتاجارہا ہے بلکہ ملک میں وسیع پیمانے پر روزگار کے مواقع میسر اتے ہیں جو خوشحالی اور ترقی کے ضامن ہیں مگر بد قسمتی سے پچھلے پانچ سالوں سے طورخم سرحد پر تجارت کا حجم گھٹتا جا رہا ہے جو ایک خطرناک حد تک آپہنچا ۔سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 2011-12میں طورخم سرحد پر تجارت کا حجم بہت بڑھ گیاتھا جس کا سالانہ ریونیو تقریباً3ارب امریکن ڈالرز تھی مگر 2012 کے بعد اس حجم کا گھٹنا سروع ہو گیا ہے ۔کچھ ایسی وجوہ سامنے ائی جس کے بنا پریہ حجم اج ایک ارب ڈالر سے بھی کم ہے جو انتہائی افسوس کی بات ہے ۔سرحد چیمبر اف کامرس اینڈ انڈسٹری کے سابق صدر زاہد شینواری نے اس حوالہ سے اپنا ویوز دیتے ہوئے کہا کہ 2011-12میں طورخم سرحد پر دو طرفہ تجارت کا حجم 2.7ارب ڈالرز کو پہنچا تھاجو ایک بلند ترین سطح تھی مگر بد قسمتی سے 2013کے بعد اس کا کم ہونا شروع ہوا جن کی کئی وجوہات انہوں نے بیاں کی۔انہوں نے کہا کہ 2011-12میں افغانستان میں غیر ملکی امداد بہت زیادہ تھی جس کی بدولت افغانستان کی مجموعی ملکی پیداوار(GDP) کا تناسب بھی خاصا بڑھ گیاتھا مگر 2012 کے بعد بیرونی امداد میںس کمی ائی جس سے افغانستان کی مجموعی ملکی پیداوار پر بھی خاصا منفی اثر پڑ گیا جس کے باعث طورخم سرحد پر تجارت کا حجم گھٹ گیا ۔اس کے علاوہ کچھ پالیسی اور انفرسٹرکچر زکے ایشو ز بھی تھے پالیسی میں ایسی سخت پابندیاں لائی گئیں جو ایک امتیازی سلوک سے ہمکنار ہوئیں کیونکہ برامدات کے حوالہ سے افغانستان کے ساتھ دیگر ممالک سے الگ ایک پالیسی عمل پیرا رہا جس سے تجارت کو بڑا نقصان پہنچا ۔
دوسری طرف افغان حکومت نے پاکستانی اشیا پر بھاری ٹیکس لگا ئی جس سے ایران اور دیگر ممالک کو فائدہ ہوا جس کے ساتھ پاکستان کے لئے مقابلہ کرنا سخت ہو گیا اگر چہ افغانستان میں اج بھی پاکستانی اشیا اور خواراکی مواد کی ڈیمانڈ زیادہ ہے ۔دوسرا اہم ایشو انفرسٹراکچر کا تھا کیونکہ 2010سے2016 تک سڑک کی خراب صورتحال نے بھی تجارت پر منفی اثرات مرتب کرنے میں اپنا کردار ادا کیاتھا اس کے علاوہ طورخم میں جگہ نہ ہونے کی وجہ سے ہر وقت بے ہنگم ٹریفک کا مسئلہ رہتا جو ایک بڑی رکاوٹ شمار کیاجاتاتھا ۔زاہد شینواری نے مزید کہا کہ طورخم گیٹ کا بند ہونا بھی ایک عنصر تھا جو ازادانہ تجارت کے راستے ایک رکاوٹ تھی ۔اس کے بعد ویزا کی پالیسی لائی گئی جس نے رہی سہی کسر پوری کی ۔ اور تجارت کو انتہائی سست روی کا شکار بنا دیا ۔انہوں نے کہا کہ 2010میں ٹرانزٹ ٹریڈ کا جو معاہدہ ہواتھا اس سے بھی دو طرفہ تجارت کو بہت نقصان پہنچا کیونکہ افغانی اس معاہدے سے خوش نہیں تھے ان تمام وجوہات کے بنا پر دوطرفہ تجارت میں انتہائی کمی دیکھنے کو ملی ہے انہوں نے کہا کہ 2019-20میں سالانہ ریونیو ایک ارب ڈالرز سے بھی کم رہی ۔جو کم ترین سطح ہیاس سلسلے میں جب طورخم کے سینیٗر کسٹم کلیئرنگ ایجنٹ مجیب شینواری سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ طورخم میں تجارت کے خلاف ایک سازش کی جا رہی ہے کیونکہ جگہ جگہ پر غیر ضروری رکاوٹیں کھڑی کر دی گئیں ہیں اور کھڑی کی جاتی ہیں جس سے تجارت تباہ و برباد ہوگیا انہوں نے کہا کہ طورخم تجارت سے متعلقہ ادارے کسٹم اور ایف بی ار ہیں مگر بد قسمتی سے غیر متعلقہ ادارے مداخلت کر کے انہوں نے تجارت کو کنفیوژ کردیا ہے جو ایک بڑی رکاوٹ ہے جس ادارے کی جو ذمہ داری ہے اگر وہ وہی نبھائے توتجارت کو نقصان نہیں پہنچے گا ۔انہوں نے کہا کہ اگر تجارت 2011-12والی پوزیشن پر لانا ہے تو اس غیر منطقی رکاوٹوں کو ختم کرنا ہو گا تاکہ ازادانہ تجارت کا بول بالا ہو ۔مجیب شینواری نے کہا کہ طورخم سرحد پر تجارت کی بگڑتی ہوئی صورتحال کی وجہ سے بے روزگاری اور غربت میں اضافہ ہوا ہے کیونکہ طورخم کے اس لائن سے سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں خاندانیں وابستہ تھیں جن کا تعلق نہ صرف لنڈ ی کوتل اور جمرود سے تھا بلکہ ملک بھر سے بڑی تعداد میں لوگ رزق کے دانے یہاں سے اٹھاتے تھے اب چونکہ پچاس فیصد سے زیادہ لوگوں نے یہاں سے ناطہ تڑ کر دوسرے علاقوں کا رخ کر لیا کیونکہ یہاں ان کا کاروبار تباہ ہو گیاتھا جنہوں نے دوسری جگوں پر از سر نو کام کر ناشروع کیا جو ایک فکر والی بات ہے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ افغانستان کے ساتھ تجارت کے معاہدوں پر نظر ثانی کرے تاکہ ایک مرتبہ پھر ازاد تجارت کو فروغ دیا جا سکے اور وہی حجم تک پہنچ سکے جو 2011-12میں ان کے چرچے تھے ۔