’یوم کشمیر’‘ نیویارک اسمبلی میں قرارداد منظور

امریکی ریاست نیویارک کی اسمبلی نے 5فروری کو یوم کشمیر قرار دینے کی قرارداد بھاری اکثریت سے منظور کی ۔ پاکستان نے قرارداد کی منظوری کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ بھارت کشمیریوں کے انسانی حقوق کی پامالی کو چھپا نہیں سکتا۔ نیویارک اسمبلی کی قرارداد میں کشمیریوں سے یکجہتی کا اظہار کیا گیا ہے۔ 3 فروری کو نیو یارک اسٹیٹ اسمبلی میں منظور کی جانے والی قرارداد میں گورنر کوومو سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ 5 فروری 2021 کو ریاست نیویارک میں یوم کشمیری امریکہ کے طور پر منائے۔نیو یارک اسمبلی کے اجلاس کے دوران رکن اسمبلی نادر سیئگ اور 12 دیگر قانون سازوں کی سرپرستی میں پیش کی گئی قرار داد میں کہا گیا ہے کہ کشمیری برادری نے مشکلات پر قابو پاکر ثابت قدمی کا مظاہرہ کیا ہے اور خود کو نیو یارک کی تارکین وطن جماعتوں کے ایک ستون کے طور پر قائم کیا ہے۔نیویارک کی ریاست متعدد ثقافتی، نسلی اور مذہبی شناختوں کے اعتراف کے ذریعہ تمام کشمیریوں کے لئے مذہب، تحریک آزادی اور اظہار رائے کی آزادی سمیت انسانی حقوق کی حمایت کرتی ہے، جو امریکی آئین کے مطابق ہیں۔امریکی کانگرس کے کئی ارکان نے بھی جوبائیڈن انتظامیہ پر زور دیا ہے کہ وہ بھارت پر دبائو بڑھا کرکشمیریوں کو ان کا جائز حق دلانے میں اپنا کردار ادا کر ے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان کو یہ کہنا پڑا ہے کہ کشمیر انسانی حقوق کا مسئلہ ہے اور ہم اس کا فوری حل چاہتے ہیں۔ اس قرارداد کی منظور ی پر بھارت کی طرف سے شدید ردعمل کا اظہار کیا گیا۔ بھارت کا کہناہے کہ جموں و کشمیر کے لوگوں کو تقسیم کرنے کے لیے ثقافتی اور معاشرتی تنوع کو غلط انداز میں پیش کرتے ہوئے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی جارہی ہے۔اس قرارداد پر تبصرہ کرتے ہوئے واشنگٹن میں بھارت کے سفارتخانے کے ترجمان نے کہا کہ امریکہ کی طرح، بھارت بھی متحرک جمہوریت ہے اور 130 کروڑ لوگوں کا ثقافتی تنوع فخر کی بات ہیں۔ بھارت میں مختلف مذہب کے لوگ رہتے ہیں جن کے روایات، ثقافت الگ الگ ہیں۔ ان میں جموں و کشمیر بھی شامل ہے، جو ہندوستان کا اٹوٹ حصہ ہے۔ ہم لوگوں کو تقسیم کرنے کے لئے جموں و کشمیر کے الگ ثقافتی اور معاشرتی موزیک کو غلط انداز میں پیش کرنے کی ذاتی مفادات کی کوشش کو تشویش کے ساتھ مسترد کرتے ہیں۔ہم نیو یارک ریاست میں منتخب نمائندوں کے ساتھ بھارت - امریکہ کی شراکت داری اور متنوع بھارتی تارکین وطن سماج سے متعلق تمام معاملات پر بات کریں گے۔ نیویارک اسمبلی میں 5فروری کو یوم کشمیر قرار دینے کی قرارداد مقبوضہ وادی کے مظلوم کشمیریوں اور پاکستان کی خارجہ پالیسی کے حوالے سے بہت بڑی کامیابی ہے اور اس بات کی علامت بھی ہے کہ کشمیر بھارت اور پاکستان کے درمیان ایک تنازعہ ہی نہیں عالمی مسئلہ بھی ہے جس کا
فوری طور پر اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل ضروری ہے تاکہ کشمیری عوام کو ان کا حق خود اختیاری مل سکے۔ اس میں شبہ نہیں کہ پاکستان کے عوام، حکومت اور تمام سیاسی جماعتیں کشمیریوں کی جدوجہد میں ان کے ساتھ ہیں۔ پاکستان نے اپنی کامیاب خارجہ پالیسی سے کشمیر کو ایک عالمی مسئلہ بنا دیا ہے یہی وجہ ہے کہ نیویارک اسمبلی نے مسئلہ کی نوعیت اور حساسیت کو محسوس کرتے ہوئے کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کیا اور 5فروری کو یوم کشمیر قرار دینے کی قرارداد منظور کی۔ قرارداد کشمیری عوام کی ہمت اور استقامت کو سراہتی ہے اور ان کی منفرد ثقافتی اور مذہبی شناخت کو تسلیم کرتی ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ریاست نیویارک تمام کشمیریوں کے لیے مذہب، تحریک اور اظہار رائے کی آزادی سمیت انسانی حقوق کی حمایت کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ یہ اس بات کا بھی ثبوت ہے کہ بھارت مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو نہیں چھپا سکتا۔ نئی انتظامیہ آنے پر امریکا نے واضح کیا ہے کہ کشمیر سے متعلق امریکی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی اور امریکا اب بھی جموں اور کشمیر کے خطے کو پاکستان اور بھارت کے درمیان ایک متنازع علاقہ سمجھتا ہے۔امریکی حکومت کی جانب سے یہ وضاحت ایک نیوز بریفنگ کے دوران دی گئی جو امریکی صدر جو بائیڈن اور ان کی انتظامیہ کے سینئر عہدیداران کی جانب سے بیانات کے ایک تسلسل کے بعد ہوئی تھی، بیانات میں جنوبی اور وسطی ایشیائی ممالک کے لیے امریکی پالیسیوں کے خدوخال واضح کیے گئے تھے۔ ان ممالک میں بھارت، پاکستان، افغانستان اور چین شامل ہیں اور پالیسی کے خدوخال پاکستان اور افغانستان سے چین پر بتدریج زور کا اشارہ کرتے ہیں۔ یہ بیانات خطے میں چین کا اثر رسوخ روکنے کے لیے امریکا کے بھارت پر بڑے انحصار کو بھی ظاہر کرتے ہیں۔تاہم مسئلہ کشمیر کے حوالے سے پالیسی کی وضاحت ظاہر کرتی ہے کہ جوبائیڈن حکومت پاکستان کے خدشات سے بھی بے نیاز نہیں ہیں۔ ترجمان نے بتایا کہ امریکا اب بھی جموں کشمیر کو متنازع علاقہ سمجھتا ہے۔گزشتہ برس اپنی الیکشن مہم کے دوران بھی بائیڈن نے مسلمانوں کے حوالے سے اپنے منشور میں مقبوضہ کشمیر سے متعلق بھارت کی متنازع قانون سازی پر تشویش کا اظہار کیا تھا۔ان کا کہنا تھا کہ کشمیری تنہا نہیں ہم صورتحال دیکھ رہے ہیں۔ جہاں مناسب ہوا مداخلت کی جائے گی۔ پر امن مظاہرین پر تشدد اور انٹرنیٹ کی بندش جیسے اقدامات جمہوریت کی نفی ہیں۔ یوں امریکی صدارتی انتخاب کی مہم میں امیدواروں کے ایجنڈے میں مسئلہ کشمیر بھی شامل ہو گیا تھا۔ بائیڈن نے کہا تھا کہ امریکی اقدار ہیں کہ انسانی حقوق کا معاملہ اٹھایا جائے، اگر صدر منتخب ہوا تو انہی اقدار پر عمل کروں گا۔ اس سب پر جو کشمیر میں ہو رہا ہے تو اس کیلئے ہمیں نمائندے کی ضرورت ہے۔ ہم انسانی حقوق کی پامالیاں آئے دن دیکھتے رہتے ہیں۔ چاہے وہ امریکا میں ہوں یا دنیا کے کسی اور کونے میں۔ ظلم کرنے والا ہمیشہ مظلوموں کو یہ باور کرواتا ہے کہ کوئی نہیں دیکھ رہا، کوئی توجہ نہیں دے رہا، جو کہ ایک ظالم کا ہتھیار ہوتا ہے۔