چوروں کی چادر
چودھری کی حویلی میں چوری ہوگئی پورے گاؤں کو وقت پڑ گیا سب کو کہا گیا کہ ہر ایک چادر کے نیچے سے گزرے گا جس پر قران پاک رکھا ہوا تھا اور اس چادر کو چار اشخاص نے چاروں جانب سے پکڑا ہوا تھا کہا یہ گیا تھا کہ جو چور ہوگا وہ چادر کے نیچے سے گزرے گا تو مرجائے گا یوں گاؤں کا ہرفرد قسم دینے پہنچ گیا حتیٰ کے سارے گاؤں کے لوگوں نے قسم دے ڈالی پورا گاؤں چادر کے نیچے سے گزرگیا مگر کسی کوکچھ بھی نہ ہواکیونکہ چادر تو چوروں نے پکڑی ہوئی تھی پاکستان کی گزشتہ چالیس سالہ تاریخ بھی اسی کہانی سے مماثلت رکھتی ہے ہر جانب لوٹ مار کا بازار گرم ہے کوئی کسی سے پوچھنے والا ہی نہیں ہے ایک عام پھیری والے اور چھوٹے دکاندار سے لیکر بڑے بڑے تاجروں تک " انھے وا " لوٹنے کی دوڑ لگی ہوئی ہے سرکاری دفاتر میں نائب قاصد سے لیکر " صاحب جی " تک روزانہ کی دیہاڑی کا رواج قائم ہوچکا ہے گزشتہ دنوں ایک دوست نے بتایا کہ وہ اور اس کا ایک ساتھی لاہور گئے لبرٹی مارکیٹ میں ایک شاپنگ مال سے واٹر سیٹ خریدنے کے لئے وہاں موجود تھے کہ اس دوران ایک خاتون اپنے دو گارڈز کے ہمراہ داخل ہوئی دس منٹ کے اندر اس خاتون نے وہاں سے کچھ شو پیس خریدے جن پر ہر ایک پر ہزاروں روپے قیمت کی چٹ آویزاں تھی خاتون نے ہاتھ کے اشارے سے سیل بوائے کو اپنی پسند کے شو پیس کو پیک کرنے کا کہا اور جب وہ کاؤنٹر پر پہنچی تو اس کا بل اڑھائی لاکھ روپے کا تھا جو اس نے بلا جھجھک اور بنا کسی تامل کے ادا کیااورنیلی بتی لگی اپنی کار میں جا کر بیٹھ گئی شاپنگ مال کے ملازم نے خاتون کے خریدے ہوئے پیک شدہ مال کو اس کی کار میں رکھوادیا جس کے بعد خاتون روانہ ہوگئی دوست نے بتایا کہ سرکاری گاڑی میں آنے والی خاتون کے انداز نے انہیں حیران کردیا کہ آخر وہ کتنے بڑے آفیسر کی بیٹی یا بیگم ہوگی جس نے منٹوں میں اڑھائی لاکھ روپے کی خریداری کی اور چلتی بنی اس کی یہ بے نیازی دیکھ کر انگشت بدنداں رہ گئے اس سے تو صاف لگتا تھا کہ خاتون کے نزدیک اڑھائی لاکھ روپے محض اڑھائی روپے کی ویلیو کے تھے اندازہ کریں جس آفیسر کی اتنی " آمدن " ہو کہ ایک دن میں اس کے گھر کی کوئی خاتون لاکھوں روپے مالیت کے شو پیس خرید لے اس کا ماہانہ " رزق حلال " کتنا ہوگا ؟ سبزی و پھل منڈی میں سبزیاں اور پھل انتہائی ارزاں قیمت پر فروخت ہو رہے ہوتے ہیں اتنے کہ جتنے میں پانچ کلو منڈی پھل و سبزی کی ڈھیریاں ملتی ہیں وہی باہر دکانوں پر فی کلو دستیاب ہوتے ہیں یوں کسان یا کاشتکار کے ہاتھ کچھ نہیں آتا لیکن اسے اپنی ہی چیز بعد میں پانچ گنا زیادہ قیمت پر ملتی ہے اس وقت عام آدمی اور اپوزیشن مہنگائی کا رونا رو رہے ہیں در اصل حکومتی نااہلی ، انتطامیہ کی دانستہ غفلت اور لوٹ مار ہی مہنگائی اور کرپشن میں اضافے کی بڑی وجہ ہے عوام کے جان ومال کی محافظ پولیس میں موجود کالی بھیڑیں جرائم کے پھیلاؤ اور مجرموں کے بے لگام ہونے کا موجب ہیں ملک کو قرضوں کے شکنجے میں کس کر اپنا کمیشن کھرا کرکے بیرون ملک اربوں کھربوں کے محلات ،جائیدادیں اور کاروبار کرنے والے تو چادر کو تھامے ہوئے ہیں پھر چور کون ثابت ہوگا؟ اس ملک پر چوروں نے چادر تانی ہوئی ہے اور عوام سے قسمیں لی جارہی ہیں عوام کا ایک ایک بال قرضوں میں جکڑ کر انہیں اورنج ٹرین، میٹرو بسوں اور موٹرویز کا تحفہ دینے والوں کے منہ سے غریب عوام کے لئے ہمدردی کے بول ان کی منافقت اور عوام دشمنی کا مظہر ہے موجودہ حکومتی صفوں میں موجود عناصر بھی ماضی کے ڈاکوؤں کے ساتھی ہیں ان سے خیر کی توقع عبث ہے۔ عمران خان کو ناکام بنانے کے لئے سب نے گٹھ جوڑ کر رکھا ہے عوام حقیقت کو جانے بنا انجانے میں ملک و قوم کو دلدل میں دھکیلنے والوں کے نعرے بلند کررہے ہیں جو ایک المیہ ہے جس سے مستقبل قریب میں کوئی امکانات نظر نہیں آرہے کہ ملک کسی خونی انقلاب کے بنا درست سمت کی جانب رواں دواں ہوسکتا ہے لہذا چوروں سے چادر چھڑوا کر عوام کے ہاتھوں میںدینی ہوگی تب ملک کو صحیح سمت کی جانب رواں دواں کیا جاسکتا ہے ورنہ چالیس سال سے جاری " چوہے بلی " کا کھیل اسی طرح جاری و ساری رہے گا عوام مہنگائی اور لوٹ مار کا رونا روتے رہیں گے جبکہ "چادر تانے چوروں" کا دھندہ پھلتا پھولتا رہے گا۔