اسلامی فلاحی معاشرے کے قیام کی پیش رفت

الخدمت فائونڈیشن ملتان کے شعبہ اسلامک مائیکروفنانس پروگرام کے تحت چھوٹے کاروبار کرنیوالے افراد کیلئے بلاسود قرض کے چیک تقسیم کرنے کیلئے الخدمت فائونڈیشن جنوبی پنجاب کے دفتر میںایک سادہ اور پروقار تقریب کا انعقاد ہوا۔جس کی صدارت ڈاکٹر اشرف علی عتیق صدر الخدمت فائونڈیشن جنوبی پنجاب نے کی ۔وائس چانسلر این ایف سی انسٹی ٹیوٹ پروفیسر ڈاکٹر اختر علی کارلو، ڈاکٹر صفدر ہاشمی امیر جماعت اسلامی ملتان ، محمد احمد چغتائی صدر الخدمت فائونڈیشن ملتان مہمان خاص تھے۔
اپنے ادارے کا تعارف کرواتے ہوئے جنرل سیکرٹری الخدمت فائونڈیشن ملتان ڈاکٹر ولی محمد مجاہد نے بتایا کہ ہم ان لوگوں کیلئے کام کرتے ہیں جن کی رسائی بنکوں تک نہیں ہوتی ۔ہم بلاسود قرض دیکر ان غریبوں کو اپنے قدموں پر کھڑا کرتے ہیں اور وہ غربت کی لکیر سے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔امیر جماعت اسلامی ضلع ملتان و سابق صدر الخدمت فائونڈیشن ملتان ڈاکٹر صفدر ہاشمی نے کہا ہم سمجھتے ہیں کہ غربت کا خاتمہ حکومت سے پہلے معاشرے کی ذمہ داری ہے اور اس اخوت کا پہلا مظاہرہ مدینہ شریف میں ہواجہاں مسلمانوں نے اپنے مال و اسباب میں مکہ کے مہاجرین کو شریک کیا ۔
تقریب میں 65 مرد و خواتین کو 19,20,000 کے چیک تقسیم کیے گئے اور الخدمت فائونڈیشن ملتان اس وقت 1132 کاروباری افراد میں دو کروڑ چونسٹھ لاکھ روپے تقسیم کر چکی ہے ۔اور اس کی ریکوری 100 فیصد ہے ۔ریکوری 100 فیصد رہنے کی وجہ سے رقم مسلسل گردش میں رہتی ہے اور ہر ماہ 40 سے 50 افراد کو قرض فراہم ہو جاتا ہے ۔ڈائریکٹر الخدمت مواخات پروگرام نعیم چشتی اپنی ٹیم کیساتھ بہترین انداز میں اس پروگرام کو چلا رہے ہیں ۔
قارئین، ملک میں غربت اتنی نہیں جتنی دولت کی تقسیم غلط ہے ۔ایک طرف خودکشیاں ہیں دوسری طرف کروڑوں میں کھیلنے والے اور شاہانہ ٹھاٹھ باٹھ رکھنے والے ہمارے حکمران بھی ان بڑے لوگوں میں شامل ہیں جو سرکاری اخراجات اور پروٹوکول کی صورت میں غربت میں مسلسل اضافہ کرتے چلے جارہے ہیں۔اگر الخدمت فائونڈیشن اتنے منظم انداز میںلوگوں کو سود سے پاک قرض فراہم کرسکتی ہے اوراپنی مدد آپ کے تحت دوسرے بے شمار فلاحی کام کر سکتی ہے تو حکومت کیوں نہیں کر سکتی ۔یہ غریب لوگ جو الخدمت فائونڈیشن سے چند ہزار کی مدد لیتے ہیں اسے سو فیصد واپس بھی کر دیتے ہیں اور انکی جگہ ایک گھرانہ غربت سے نکل آتا ہے اور اپنے قدموں پہ کھڑا ہوجاتا ہے ۔یہ غریب لوگ بنک خور نہیں ہیں یہ صرف عزت کی زندگی اور رزق حلال کے طلبگار ہیں ۔یہ کون حساب لگا سکتا ہے کہ جو لوگ یہ کام کر رہے ہیں انکے حصے میں کتنی نیکیاں جمع ہو رہی ہیں ۔یہی وہ لوگ ہیں جن سے معاشرہ زندہ ہے اور ان کی شرم باقی ہے ۔ان لوگوں کے کام کی تعریف کیلئے موزوں الفاظ کہاں سے لائیں ۔اصل اسلام یہی ہے اور دراصل حقیقی مسلمان یہی لوگ ہیں جو ایک اسلامی فلاحی معاشرہ قائم کرنے کی طرف گامزن ہیں۔