اتوار ‘ 28 ؍جمادی الثانی 1441ھ ‘ 23 ؍ فروری 2020 ء
شہباز شریف ایوان میں نہیں آتے تو نیا اپوزیشن لیڈر چنا جائے۔ فواد چودھری
یہ تو سراسرزیادتی ہے۔ کم از کم تھوڑی بہت رعایت تو ملنی چاہئے سب کو۔ اپوزیشن رہنما کی ایوان میں غیرحاضری اتنی بری بھی نہیں وہ عام طور پر ایوان میں فعال کردار ادا کرتے نظر آئے ہیں۔ اب وہ اگر اپنے برادر اکبر کی بیماری کی وجہ سے غیر حاضر ہیں تو کوئی بات نہیں۔ ایوان میں بلاول اور خواجہ آصف فی الحال ان کی کمی محسوس ہونے نہیں دے رہے۔ اعتراض کرنیوالے اگر یہی مطالبہ قائد ایوان یعنی وزیر اعظم کے لیے کریں تو کیا یہ غلط ہو گا جو بہت کم ایوان میں تشریف لاتے ہیں۔ پی ٹی آئی کے شعلہ بیان مقرر کیا ٹھنڈے پیٹوں یہ بات ہضم کر لیں گے۔ نہیں یہ ممکن نہیں، ویسے بھی اپوزیشن والے مسلم لیگ ن) کے معتبر ارکان کہہ رہے ہیں کہ میاں شہبازشریف مارچ سے قبل واپس آ جائیں گے تو چلیں بقول شاعر …؎
ضد ہر اک بات میں نہیں اچھی
دوست کی دوست مان لیتے ہیں
انکی بات پر ہی یقین کر لیا جائے۔ جہاں اتنے عرصہ گزرا کچھ دن اور سہی۔ ویسے بطور اپوزیشن لیڈر پی ٹی آئی کے قائد خود بھی حلف برداری کے علاوہ شاید ہی کبھی ایوان میں آئے ہوں۔ اب فواد جی کے بیان کے جواب میں مسلم لیگ (ن) والے یہی کہہ رہے ہیں کہ وزیر اعظم کی طویل غیر حاضری پر اشتہار دیا جائے۔ اس وقت جو حالات چل رہے ہیں اس میں جلتی پر تیل ڈالنے کی بجائے آگ کو بجھانے کی کوشش زیادہ سودمند ہو گی۔ ورنہ ایوان یونہی مچھلی منڈی کا نقشہ پیش کرتا رہے گا۔
٭٭٭٭٭
سونا 1150 روپے اضافہ کے بعد 93 ہزار 650 روپے تولہ ہو گیا
اب اس پر کوئی لڈو تو بانٹ سکتا نہیں۔ آتش بازی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پٹاخے تو پھوڑ سکتا نہیں۔ سونے کے خریداروں کا رونا دھونا اپنی جگہ۔ سونے کی اس بلند جست نے تو دکانداروں کا بھی کباڑا کر دیا ہے۔ لوگوں سے زیادہ دکاندار رو رہے ہیں۔ وہ سارا دن مکھیاں مارتے ہیں۔ ایک ڈیڑھ سال میں سونے کی قیمت 60 ہزار سے بڑھ کر ایک لاکھ کی ریکارڈ قیمت کو چھونے والی ہے۔ غریب والدین جنہوں نے بچوں بچیوں کی شادیاںکرنی ہیں وہ مایوس نظروں سے آسمان کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ ان کی خاموش زبانوں پر پنجابی کے دکھی شاعر کی نظم … ’’اللہ میاں تھلے آ‘‘
نہ چاہتے ہوئے مچل جاتی ہے۔ کیا یہ سب کچھ حکمران دیکھ رہے ہیں۔ کروڑوں پاکستانیوں کے دل میں چھپے درد کو سمجھ رہے ہیں۔ صرف امرا ہی پاکستانی نہیں ہوتے جن کی شادیوں میں دلہن کو سونے میں لادا جاتا ہے۔ یہ صرف چند لاکھ لوگ ہیں اصل مسئلہ ان کا ہے جو بیٹی کے لیے ایک انگوٹھی یا دو بالیاں تک خریدنے کی سکت سے محروم ہو گئے ہیں۔ اب اس کا حل یہی ہے کہ حکومت شادی بیاہ میں سونے کا استعمال بند کرائے یا غریبوں کو شادی پرایک انگوٹھی اور دو بالیاں ازخود دے۔ پہلے ہی جہیز کی لعنت کی وجہ سے لاکھوں لڑکیاں بڑھاپے کی دہلیز پار کر رہی ہیں۔ اب تو سونا مہنگا ہونے سے یہ تعداد کروڑوں تک پہنچ جائے گی۔ اس پر تو واقعی اللہ میاں سے نیچے آنے کی فریاد ہی کی جا سکتی ہے۔
پی ایس ایل 2020 ء لاہور قلندر پہلا میچ ہی ہار گئی۔
ضبط لازم ہے مگر دکھ ہے قیامت کا فراز
ظالم اب کہ بھی نہ روئے گا تو مر جائے گا
لاہور قلندر کی پی ایس ایل 2020 ء کے پہلے میچ میں ہی شکست نے فتح کی امیدیں لگانے والے لاکھوں لاہور قلندر کے شائقین کو رونے پر مجبور کر دیا ہے۔ شکر ہے اس ہار پر تماشائیوں نے گرائونڈ میں اپنے جذبات کا اظہار نہیں کیا مگر کب تک۔ یہ تو سراسر اڑنے سے بیشتر ہی پر کترنے والی بات ہے۔ لاہور قلندرکے دیوانے پچھلی شکستوں کو بھول کر کئی خوشنما خواب آنکھوں میں بسائے گرائونڈ میں آئے ٹی وی سکرینوں کے سامنے براجمان ہوئے مگر وہی ناشدنی جو ہونی تھی ہو کر رہی۔ لوگوں کو تو لاہور قلندر کے مالک کی ہمت پر رشک آتا ہے جو مسلسل ہارنے والی ٹیم سے دلبرداشتہ نہیں ہوتے اورمسکراتے ہوئے یہ پے درپے صدمے برداشت کرتے ہیں۔ ورنہ بار بار فیل ہونے والے بچے کا یاتو سکول بدل دیا جاتا ہے یا اسے کسی اور کام پر لگا دیا جاتا ہے۔ اب تو لاہوری بھی اپنی ٹیم کی مسلسل ہار سے تنگ آنے لگے ہیں۔ کئی دل جلے تو مطالبہ کر رہے ہیں کہ ٹیم کا نام تبدیل کیا جائے کیوں کہ لاہور میں قلندر نہیں دیوانے یا ملنگ ہوتے ہیں۔ زیادہ ماڈرن لوگ تو لاہوری منڈے نام بھی تجویز کرتے پھر رہے ہیں۔ امید پر دنیا قائم ہے۔ ابھی یہ پہلا میچ ہے۔ ابھی عشق میں امتحاں اور بھی ہیں۔ کیا معلوم آگے چل کر لاہور قلندر کچھ نہ کچھ کر کے ہی دکھا دے۔ مگر فی الحال تو لوگ ہار کا غم غلط کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ کہیں یہ لوگ اگلے میچ کا بائیکاٹ ہی نہ کر دیں۔
٭٭٭٭٭
20 لاکھ افراد استقبال کریں گے۔ مودی کا صدر ٹرمپ کو چکمہ
جھوٹ ، فریب اور تعصب بھارتی وزیر اعظم مودی کی سیاست کا اہم جزو ہیں۔ پورا بھارت اپنے وزیر اعظم کی ان خوبیوں کے ہاتھوں نالاں ہے۔ اگر کوئی نہیں ہے تو وہ صرف اور صرف بی جے پی کے رہنما اور کارکن ہیں جو خود بھی انہی اصولوں کو حزر جاں بنائے ہوئے ہیں۔ کل امریکی صدر ٹرمپ بھارت کے دورے پر احمد آباد پہنچ رہے ہیں۔ اس حوالے سے مودی نے روایتی جھوٹ کا سہارا لیتے ہوئے ٹرمپ کو خوش کرنے کے لیے کہا ہے کہ ’’احمد آباد میں 20 لاکھ افراد ان کااستقبال کریں گے۔‘‘ ان کے استقبال کے راستے رونق لگانے کے لیے پہلے ہی وہاں کی انتظامیہ نے راستے میں جگہ جگہ سٹیج بنائے ہیں جہاں فنکار اپنے فن کا مظاہرہ کریں گے۔ یوں عوام کے ٹھٹھ کے ٹھٹھ لگ جائیں گے۔ مودی اسے بھی امریکی صدر کا والہانہ استقبال قرار دیں گے۔ ویسے اس سڑک کی دوسری طرف مہان بننے والے بھارت کا اصل چہرہ بھی گندی بستیوں کی شکل میں موجود ہے جس کے آگے ٹرمپ کے دورے سے قبل ہی مودی حکومت نے روایتی فریب کا مظاہرہ کرتے ہوئے طویل دیوار بنا دی ہے تاکہ صدر ٹرمپ بھارت کا اصل چہرہ نہ دیکھ سکیں۔ یوں مودی جی امریکی صدر کو لبھانے کے لیے ہر وہ دائو پیچ استعمال کر رہے ہیں جو ایک بوڑھی نائیکہ چہرے پر لیپاپوتی کر کے کرتی ہے۔ صدر ٹرمپ بھی بڑے کائیاں ہیں۔ دیکھتے ہیں وہ اس فریب کا شکار ہوتے ہیں یا دامن بچا کر گزر جاتے ہیں۔
٭٭٭٭٭