عمران خان نے ایک بڑی عمر کی درویش خاتون سے شادی کی۔ بشریٰ بی بی کی عمر پچاس برس کے قریب ہوگی۔ ان کی طرف سے کوئی بات سامنے نہیں آئی۔ وہ خود بھی کسی کے سامنے نہیں آتیں۔ وہ صرف عمران خان کی حلف برداری کی تقریب میں موجود تھیں اور عمران کے ساتھ نہ آئیں‘ اکیلی آئیں۔ وہ سفید کپڑوں میں ملبوس تھیں اور ان کے ناخن بھی نظرنہیں آرہے تھے۔ اصل میں ایک دن بھی خاتون اول بشریٰ بی بی وزیراعظم ہائوس میں نہیں رہیں۔ شاید بنی گالا میں رہ رہی ہوں یا وہ گھر جہاں عمران خان وزیراعظم پاکستان رہتے ہیں۔ عمران کے روابط دونوں سے ہیں۔ بشریٰ بی بی نے پہلے خاوند خاورمانیکاسے طلاق لی اور پھر عمران خان سے شادی کی۔ جو حالات اس دوران تھے‘ شاید عمران خان کو بھی پتہ نہ ہو۔ خاتون اول بشریٰ بی بی کو پتہ ہوگا مگر ان سے کون پوچھے۔ تحریک انصاف کی ممتاز سیاستدان لیڈر ثروت روبینہ کبھی کبھی بشریٰ بی بی کے رابطے میں ہوتی ہے۔ وہ پچھلے دنوں عمران خان سے بھی ملی ہے۔ جب وہ وزیراعظم نہ تھے۔
عمران خان ایک سچے عاشق رسولؐ ہیں اور وہ صدق دل سے سمجھتے ہیں کہ بشریٰ بی بی ایک روحانی شخصیت ہے۔
عمران خان پہلے بھی مدینہ منورہ گئے ہونگے مگر ننگے پائوںاب گئے ہیں۔ وہ شاید اس سے پہلے کسی بڑے صوفی کے مزار پر بھی نہیں گئے ہونگے مگر پاکپتن میںبابا فرید کے مزار پر گئے۔ بشریٰ بی بی بھی بابا فرید کے مزار پر کئی بار گئی ہونگی۔ صوفیاء کی تاریخ کیلئے ہمارے ہاں کہتے ہیں بابا فرید سے خواجہ فرید تک۔ کبھی عمران خان اور بشریٰ بی بی خواجہ فرید کے مزار پر بھی جائیں۔ برادرم یاسین وٹو نے نوائے وقت میں ایک کالم لکھا تھا جس میں انہیں روایت شکن وزیراعظم قرار دیا اور بشریٰ بی بی کو بے مثل خاتون اول کہا۔ پاکستان میں بھی اب خاتون اول کے حوالے سے ایک روایت چل پڑی ہے جو پازیٹو ہے اور خوش آئند ہے کیونکہ نہ کسی نے ان کی آواز سنی ہے نہ انہیں دیکھا ہے۔ پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کی بیگم صاحبہ رعنا لیاقت علی سے لے کے نوازشریف کی اہلیہ تک خواتین اول کا ذکر ہوتا رہا ہے۔ کلثوم نواز لوگوں کی محبوب خاتون اول تھیں۔ ایک بار صدر اور وزیراعظم کی اہلیہ کے حوالے سے بحث بھی ہوئی تھی کہ کون خاتون اول ہے۔ پھر جب زرداری صاحب صدر ہوئے تھے اور بینظیر بھٹو شہیدہو چکی تھیں تو اس مسئلے نے سر نہ اٹھایا۔ صدر زرداری نے ہی یوسف رضا گیلانی کو وزیراعظم بنایا تھا اور ممنون حسین کو صدرمملکت‘ وزیراعظم نوازشریف نے بنوایا تھا۔ تو یہ مسئلہ ختم ہو گیا۔ اب یہی حال صدر عارف علوی کا ہے اور بشریٰ بی بی نے کبھی اس منصب یا اعزاز کی طرف توجہ ہی نہیں دی۔
طلال چودھری اپنے جماعتی لیڈروں کے بارے میں جانتا ہے۔ اس نے عمران خان کیلئے منگتا کا لفظ استعمال کیا ہے جبکہ پاکستان کے سارے حکمران منگتے تھے جس کیلئے تجزیہ کار عارف حمید بھٹی نے بہت بُرا منایا اور کہا کہ پاکستان کیلئے کسی سے کچھ مانگنا ہے تو میں منگتا ہوں۔ سچا حکمران پاکستان کیلئے منگتا بن سکتا ہے مگر لٹیرا نہیں۔ لوٹ مار کرنے والے بھی اندر سے منگتے ہی ہوتے ہیں۔ سعودی عرب کے ساتھ نوازشریف کی زیادہ دوستی اور خاکساری ہے۔ (ن) لیگی لوگوں کیلئے بے چینی کی بات یہ ہے کہ سعودیہ والے ہمارے علاوہ بھی کسی کے دوست ہیں۔ سعودی عرب کسی کو خیرات نہیں دیتا۔ اس کے بھی مفادات ہیں۔ جو کچھ وہ برادر ملک کیلئے کرتے ہیں‘ وہ سرمایہ کاری ہوتی ہے۔ تجارت ہوتی ہے۔ البتہ پاکستان کے حوالے سے سعودی عرب محبت بھی رکھتا ہے۔ اسے علم ہے کہ پاکستان ہی مسلمان ملکوں کی نمائندگی کرتا ہے اور صحیح معنوں میں اس کے پاس طاقت بھی ہے۔
سعودی ولی عہد بھارت بھی گئے ہیں مگر انہوں نے کسی معاملے میں پاکستان کا نام نہیں لیا۔ پلوامہ حادثے کا ذکر بھی نہیں کیا۔ یہ بھارت کا اندرونی معاملہ ہے۔ بھارت کی بڑی سبکی ہوئی ہے اور اس کی سیاسی شرمندگی کا تذکرہ پوری دنیا میں ہوا ہے۔ امریکہ‘ روس اور چین نے بھی اپنے ردعمل میں پاکستان پر بھارتی الزام کی تائید نہیں کی۔ خوشی کی بات یہ بھی ہے کہ سعودی ولی عہد نے مستقبل میں پاکستانی معیشت کی ترقی کیلئے خوشخبری بھی دی ہے۔
ایک روایات جسے پاکستانی عوام نے پسند کیا کہ سعودی عرب میں پاکستانی قیدیوں کی رہائی کیلئے عمران خان نے واضح انداز میں بات کی۔ وہ لوگ جو خانہ کعبہ اور روضۂ رسولؐ پر حاضری کے شوق میں گئے اور کسی چھوٹی سی بات یا کسی غلط فہمی کی وجہ سے سعودی جیلوں میں ہیں‘ انہیں پوچھنے والا کوئی نہیں۔ ان کے عزیزواقارب اور دوست اور بچے تڑپ رہے ہیں۔ عمران کیلئے دعائوں کا ڈھیر اپنے دل میں لئے خوش ہیں۔ اس کے بعد پاکستان میں دوسرے دن سعودی شہزادے نے دو ہزار سے زیادہ پاکستانی قیدیوں کی رہائی کا حکم دیدیا۔ پاکستان میں سعودی شہزادے اور عمران خان کیلئے ایسی فضا بن گئی جس میں خوشبو ہی خوشبو ہے۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024