بات بہت بڑھ چکی ہے۔ بھارت میںتنقید ہوئی کہ سعودی شہزادے نے پلوامہ کی مذمت کیوں نہیں کی ۔ تین روز تک بھارتی میڈیا نے طوفان کھڑا کئے رکھا۔ تب جا کر سعودی شہزادے نے مشترکہ ا علامیہ میں اضافہ کروایاا ور کہا کہ پاکستان اور بھارت میں جامع مذاکرات ہونے چاہئیں اور ان مذاکرات کے لئے سازگار ماحول بنایا جائے۔ اس ضمن میں سعودی شہزادے نے پلوامہ سانحے کی مذمت بھی کر دی۔ اس سے بھارت میں ایک ہنگامہ تو ختم ہو گیا مگر کئی اور بحثیں جاری رہیں کہ راہول گاندھی نے یک جہتی کی فضا کو دو دنوں بعد پارہ پارہ کیوں کر دیا۔ یہ بھی سوال کیا گیا کہ راہول تو مرنے والے بھارتی فوجیوں کے گھروں میں چلاگیا مگر مودی کیوں نہیں گیا۔ بھارت میں مطالبہ ہوا کہ کشمیریوں کو نکال باہر کرو۔ اس کے مقابلے میں دوسری آوازیں بھی سننے میں آئیں کہ بھارت اگر کشمیریوں پر ظلم کا سلسلہ بند نہیں کرے گا تو تحریک آزادی کا راستہ کیسے روکا جاسکے گا۔ یہ بھی سوال اٹھایا گیا کہ بھارتی حکومت اگر ایسی کشمیری حکومتوں سے بھی برا سلوک کرے جو بھارت کی طرف دار ہوں جیسے محبوبہ مفتی اور مفتی سعید وغیرہ تو کشمیر میں بھارت کا ساتھ دینے والا کون ہو گا۔بھارت میںمطالبہ ہوا کہ پاکستان نے چالیس مارے ہیں توا سکے چار سو مارو۔ کسی نے کہا کہ پاکستان کا وجود ہی بھارت کے لئے خطرہ ہے۔ کسی نے سعودی شہزادے ہی کو آڑے ہاتھوں لیا اور مودی سے سوال کیا گیا کہ ا س نے پاکستان کو بیس ارب دان کرنے والے سے جپھی کیوں ڈالی۔بہر حال بھارت میں یہ کہنے والے بھی تھے کہ ہم سعودی عرب کو پاکستان سے تعلقات نہ رکھنے کے لئے مجبور نہیں کر سکتے۔ ایک ٹاک شو میں ریٹائرڈ بھارتی جرنیلوں سے پوچھا گیا کہ جیش محمد کے کمانڈر مسعود اظہر کو کیسے ٹھکانے لگایا جا سکتا ہے۔
بھارت اگر رد عمل کااظہار بلا تاخیر کرتا ہے تو ہم منیر نیازی کے الفاظ میں ہمیشہ دیر کر دیتے ہیں۔وزیر اعظم عمران خان نے مختصر سا پالیسی بیان دو دن گزرنے کے بعد دیا جبکہ مودی نے پلوامہ سانحہ کے پانچ منٹ کے اند رپاکستان اور جیش محمد پر الزام لگا دیا تھا۔ اس سانحے میں ساری دنیا حیران تھی کہ بھارتی فوج بڑے پیمانے پر نقل وحرکت کر رہی تھی مگر اس کی سیکورٹی کا بند وبست کیوں نہ کیا گیا اور یہ کیسے ہوا کہ ایک خود کش بمبار کی گاڑی ساڑھے تین سو ٹن بارود لے کر کشمیر بھر میں گھومتی رہی مگر ہر چند کلومیٹر پر واقع بھارتی فوجی چوکیوںنے اسے کہیں بھی روکنے کی کوشش کیوں نہ کی اور وہ اس قدرآزادی کے ساتھ گھومتا پھرتا بھارتی فوجی قافلے سے کیسے جا ٹکرایا۔ یہ بھی سوال ہوا کہ اس فوجی قافلے میں زیادہ تر دلت تھے۔ مرنے والوں میں اڑتیس دلت تھے اور نو سکھ۔ ان میں کوئی برہمن ہندو نہ تھا۔ یہ فوجی قافلہ بھی پکی فوج کا نہیں تھا بلکہ یہ پیراملٹری گروپ کے لوگ تھے۔
بھارت نے ابتدائی جنگی جنون کے بعد قدرے خاموشی اختیار کر لی تو ہمارے وزیر اعظم نے ایک مختصر تقریر کر کے یہ مسئلہ پھر سے اٹھادیا، عمران خان نے پہلے تو کہا کہ بھارت کوئی ثبوت دے۔ وہ خود تحقیق کروائیں گے ا ور ذمے داروں کو سخت سزا دیں گے۔ اب یہ تو حکومت پاکستان ہی جانتی ہے کہ کیا بھارت نے جماعت الدعوہ ا ور فلاح انسانیت کے خلاف کوئی ثبوت دیئے جن کی بنا پر ہم نے ان تنظیموں کے خلاف ایکشن لے لیا۔ حافظ سعید کو بھارت کا دشمن خیال کیا جاتا ہے ۔ بھارت والے بھی یہی کہتے ہیں اور ہم بھی یہی خیال کرتے ہیں مگر بھٹو نے تو علی الاعلان کہا تھا کہ وہ کشمیر کے لئے ہزار سال تک جنگ کریں گے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو نے کشمیر میں انتفاضہ کے آغاز پر کنٹرول لائن پر جا کر نعرے لگائے تھے کہ آزادی آزادی! تو پھر پاکستان پیپلزپارٹی کواس کھلی بھارت دشمنی کی سزا کیوں نہیں دی جاتی ۔
دوسری طرف بھارت کے ساتھ دوستی کا شوق رکھنے والی مسلم لیگ ن کی قیادت پر قیامت کا وقت کیوں ہے۔نواز شریف تو اس قدر امن کا خواہاں ہے کہ وہ کہتا تھاکہ یہ واہگہ کی لکیر کیوں ہے۔ عجب ستم ظریفی ہے کہ مبینہ طور پر بھارت دشمن حافظ سعید بھی ہمارے ہاںمعتوب ہے اور مبینہ طور پربھارت دوست نواز شریف بھی احتساب کی زد میں ہے۔ تو پاکستان کے عوام یہ ضرور جاننا چاہتے ہیں کہ ہماری بھارت پالیسی کیا ہونی چاہئے۔
میں نے پہلے بھی لکھا تھا کہ یہ وقت ہے کہ ہم پینسٹھ کی طرح قومی یک جہتی کا ثبوت دیں مگر ہمارے ہاں الٹا قومی، صوبائی،سیاسی انتشار کی کیفیت ہے۔ملک کی دونوں بڑی پارٹیوں کی قیادت ،حکومت یا نیب کے رویئے سے نالاں ہے اور حکومت کا نعرہ ہے کہ وہ چوروں اور ڈاکووں کو نہیں چھوڑے گی۔ چھوڑنا بھی نہیں چاہئے مگر کیااس کے لئے بھارت کو کھلا چھوڑ دیں کہ وہ جو چاہے ہمارے ساتھ کرے۔ مودی نے سخت سزا کی دھمکی دی ہے۔ بھارتی عوام کا بڑا حصہ جنگ چھیڑنے حتی کہ ایٹمی جنگ کا رسک لینے کی بات بھی کر رہا ہے۔ اس خطر ے کا مقابلہ کرنا ہے توہمیں باہمی آویزش اور بلیم گیم کو کچھ دیر بھولنا پڑے گا۔ اور حکومت کو آل پارٹیز کانفرنس بلا کر قومی وحدت کے لئے بڑا قدم اٹھانا ہو گا۔ یہ کام حکومت ہی کا ہے۔ اپوزیشن پارٹیاں اپنے طور پر یہ انشی ایٹو نہیں لے سکتیں۔ پینسٹھ میں ایوب خان کو ضروت پڑی تو سبھی اپوزیشن لیڈر ان کے دائیں بائیں شانے سے شانہ ملائے کھڑے تھے۔آج نواز شریف جیل میں اور زرداری کو جیل جانے کا خطرہ لاحق ہے۔ سندھ کا اسپیکر جیل میں ہے۔ اس ماحول کو ٹھیک کر کے ہی ہم قوم کو یک جہتی، وحدت اور اتحاد کی لڑی میں پرو سکتے ہیں اور یہی پینسٹھ والا ماحول ہی ہمارے دشمن کے دانت کھٹے کر سکتا ہے ورنہ اکہتر کی طرح قومی بٹوارہ دیکھنے میں آیا تو خدا نخواستہ انجام بھی وہی ہو سکتا ہے۔
ان دنوںمیرے ساتھ یہ ہو رہا ہے کہ کالم ختم کر لیتا ہوں تو کوئی بڑا بیان آجاتا ہے۔ اگرچہ آئی ایس پی آر کے سربراہ کی تقریر کاا علان گزشتہ روز سے ہو رہا تھا مگر کیا ہی اچھا ہوتا کہ یہ خطاب جمعرات کے روز ہی ہو جاتا۔ اور مجھے اس کی روشنی میں وضاحت سے لکھنے کا موقع مل جاتا۔بہر حال چند باتیں ایسی ہیں جو جنرل صاحب کی بریفنگ کے ضمن میں مجھے اہم لگی ہیں۔ اور میں ان کا فوری ذکر ضروری سمجھتاہوں۔ پوری بریفنگ کا جائزہ بعد میں لوں گا۔ انشا اللہ!! ایک تو انہوںنے یہ بتایاکہ پلوامہ حملہ ایک کشمیری نوجوان نے کیا۔ اس طرح یہ اندازے اور الزامات غلط ثابت ہو گئے کہ پلوامہ کا ڈرامہ خود مودی نے رچایا۔ مودی پر یہ الزام خود بھارتی حلقوں نے بھی عائد کیا تھا۔دوسرے انہوںنے پاکستان کے تاخیر سے رد عمل کی وجہ یہ بتائی کہ ہم خود بھی بھارتی الزامات کی تحقیقات کرنا چاہتے تھے۔یعنی ہوئی تاخیر تو کچھ باعث تاخیر بھی تھا۔انہوںنے یہ نہیں بتایا کہ ان کی تحقیق کے نتائج کیا ہیں ۔بھارت تو کہتا تھا کہ یہ حملہ جیش محمد نے کیا مگر ہم نے جماعت الدعوہ اور فلاح انسانیت کے خلاف ایکشن لے لیا۔ مجھے نہیںمعلوم کہ ان جماعتوں کو کیوںدھر لیا گیا ہے اور ان کا پلوامہ حملے سے کیا تعلق ہے۔جنرل صاحب اپنے پیش رو کی طرح کبھی لاہورا ٓئیں تو ان سے بہت کچھ جاننے کا موقع ملے گا۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024