ریاستِ مدینہ.... نشانِ منزل
14 ۔ اگست 1947 ءکو برطانوی سامراج تو اس خطّے سے رخصت ہو گیا تھا مگر اپنے لاتعداد ایسے پیروکار چھوڑ گیا جو بظاہر دیسی مگر بباطن انگریز تھے۔ مغربی تہذیب و ثقافت کے دلدادہ یہ افراد پرلے درجے کے دین بیزار تھے‘ لہٰذا ان کی طرف سے پاکستانی مسلمانوں کی ملّی امنگوں کی آئینہ دار قراردادِ مقاصد کی بھرپور مخالفت کی گئی حالانکہ یہ پاکستان کی ریاستِ مدینہ کی نہج پر تعمیر کے لئے بنیادی دستاویز تھی۔ انہوں نے اس قرارداد کو یہ کہہ کر متنازعہ بنانے کی کوشش کی کہ جب پاکستان میں مختلف مکاتب فِکر کے ماننے والے ایک دوسرے کے پیچھے نماز ادا کرنا گوارا نہیں کرتے تو اس قرارداد کی رو سے یہاں کسی ایک فرقے یا مسلک کا پسندیدہ اسلامی نظام نافذ کرنے سے فساد اور انتشار برپا ہو جائے گا۔ یہ لوگ اس قدر منہ زور تھے کہ قائداعظم محمد علی جناحؒ کے 11 ۔ اگست 1947ءکو ملک کی آئین ساز اسمبلی سے خطاب کے ایک اقتباس کو بلا سیاق و سباق پیش کر کے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ وہ پاکستان کو اسلامی کی بجائے ایک سیکولر ریاست بنانے کے متمنّی تھے۔یہ لوگ قیام پاکستان کا محرّک دینِ اسلام کی بجائے ہندو اکثریت کی طرف سے مسلمانوں کا معاشی استحصال قرار دیتے تھے اور ”پاکستان کا مطلب کیا.... لاالٰہ الّااللہ“ کے نعرے کو چند نوجوانوں کے جذباتی پن سے تعبیر کرتے تھے۔ یہ بیانیہ ہر محبِّ وطن کے لئے بڑا ہی تکلیف دہ تھا‘ خاص طور پر ان کے لئے جنہوں نے اس مملکتِ خداداد کی طرف ہجرت کے موقع پر اپنے شیرخوار معصوم بچوں کو سکھ اور ہندو بلوائیوں کے نیزوں پر جھولتے‘ اپنی عفّت مآب بیٹیوں کو انسانی روپ میں بھیڑیوں کے ہاتھوں اغواءہوتے اور لاہور ریلوے سٹیشن پر مسلمانوں کی کٹی پھٹی اور مسخ شدہ لاشوں سے بھری ٹرینوں کے دل دہلا دینے والے مناظر دیکھے تھے۔ ان لوگوں کا سوال تھا کہ اگر پاکستان کا مطلب سیکولر یا لادین ریاست ہی قائم کرنا تھا تو پھر انہیں آگ اور خون کے دریا پار کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ اس صورت حال نے ایک فکری آویزش کو جنم دیا جو آج بھی جاری ہے۔ پاکستان کے اسلامی نظریاتی تشخص کے خلاف اب تو اسلام مخالف عالمی طاقتیں بھی خم ٹھونک کر میدان میں آچکی ہیں اور اپنی پروردہ کچھ غیر سرکاری تنظیموں کے ذریعے لبرل پاکستان کے تصور کو پوری شدّومد سے آگے بڑھا رہی ہیں۔ بدقسمتی سے انہیں ہر طبقے میں ایسا بکاﺅ مال بھی میسر آگیا ہے جو ان کی ہاں میں ہاں ملا رہا ہے۔ نظریہ¿ پاکستان ٹرسٹ سمجھتا ہے کہ قیام پاکستان کے اسباب و مقاصد اور اس مملکت کے اسلامی نظریاتی تشخص کے بارے فکری ابہام پیدا کرنے کی سازش درحقیقت اس ففتھ جنریشن وار کا حصہ ہے جسے اس کے دشمنوں نے شروع کر رکھا ہے۔ یہ جنگ ہمہ جہت ہے اور فکری محاذ پر اس سے پنجہ آزمائی میں نظریہ¿ پاکستان ٹرسٹ کو ہر اول دستے کی حیثیت حاصل ہے۔ اس کے تحت نظریہ¿ پاکستان کانفرنس کا سالانہ بنیادوں پر انعقاد دراصل اس جنگ میں محبِّ وطن افراد کے حوصلوں کو تقویت پہنچانے اور اس عہد کی یاد دہانی کے لئے ہے جو ہمارے بزرگوں نے ”پاکستان کا مطلب کیا.... لاالٰہ الّااللہ“ قرار دے کر خدائے بزرگ و برتر سے کیا تھا۔ بے شک! اس عہد کا مطلب یہ تھا کہ اگر اللہ تعالیٰ ہمیں انگریزوں کی غلامی اور متعصب ہندو اکثریت کے تسلط سے نجات کے لئے ایک الگ خطہ¿ زمین عطا فرما دے تو ہم اللہ تعالیٰ کے احکامات اور نبی¿ کریم کی تعلیمات کے مطابق اس مملکت کی سیاست‘ معیشت اور معاشرت کو استوار کریں گے۔ ریاستِ مدینہ کے بعد پاکستان دنیا کی واحد ریاست ہے جو نظریہ¿ اسلام کی بنیاد پر معرضِ وجود میں آئی۔ اس کا یہی تخصّص اسلام دشمنوں کی نگاہوں میں کانٹے کی مانند کھٹک رہا ہے اور وہ پاکستانی عوام کی نظروں میں اسے بے وقعت بنانے کے جتن کر رہے ہیں۔
گیارہویں سالانہ سہ روزہ نظریہ¿ پاکستان کانفرنس کے دوسرے روز پانچویں اور چھٹی نشستوں میں اس کے کلیدی موضوع ”ریاستِ مدینہ.... نشانِ منزل“ پر سیر حاصل گفتگو ہوئی۔صدارت بیگم مجیدہ وائیں نے کی جبکہ نظامت کے فرائض نظریہ ¿ پاکستان ٹرسٹ کے سیکرٹری شاہد رشید نے انجام دیے ۔ تمام مقررین نے نظریہ¿ پاکستان ٹرسٹ کو اس شاندار نظریاتی اجتماع پر مبارکباد پیش کی اور اسے رہبر پاکستان محترم مجید نظامی کی جدوجہد کا تسلسل قرار دیا۔ خانوادہ¿ حضرت سلطان باہوؒ صاحبزادہ سلطان احمد علی نے جہاں اس موضوع پر فصاحت و بلاغت کے دریا بہا دےے‘ وہاں ممتاز دانشور اور روزنامہ پاکستان کے ایڈیٹر انچیف مجیب الرحمن شامی نے مکالمے کی صورت ریاست ِ مدینہ کے تقاضوں کو واضح کیا۔ روزنامہ ”نئی بات“ کے گروپ ایڈیٹر پروفیسر عطاءالرّحمن نے آئینِ پاکستان سے وفاداری کی اہمیت اجاگر کی تو معروف کالم نگار طیبہ ضیاءچیمہ نے نسلِ نو تک نظریہ¿ پاکستان منتقل کرنے کے ضمن میں سرزد ہونے والی کوتاہیوں پر روشنی ڈالی۔ بیگم مہناز رفیع‘ رانا محمد ارشد‘ پروفیسر ڈاکٹر پروین خان‘ بیگم خالدہ جمیل‘ بیگم صفیہ اسحاق اورڈاکٹر غزالہ شاہین وائیں نے بھی پاکستان کو ریاستِ مدینہ کا عکّاس بنانے کے سلسلے میں اپنے خیالاتِ عالیہ سے نوازا۔
کانفرنس کی ساتویں نشست کشمیر سےشن پر مشتمل تھی جس کی صدارت جسٹس (ر) خلیل الرحمن خان نے کی۔ نشست سے نظرےہ¿ پاکستان ٹرسٹ کے وائس چےئرمےن مےاں فاروق الطاف‘ تنظےم فکر نظر سندھ کے صدرپروفےسر اصغر علی مجاہد‘ کشمےری رہنما فاروق خان آزاد اور سےد نصےب اللہ گردےزی‘ نظرےہ¿ پاکستان فورم کوٹلی کے صدر پروفےسر محمد عبداللہ‘ نظرےہ¿ پاکستان فورم مےر پور کے جنرل سےکرٹری ظہےر اعظم جرال‘ نظرےہ¿ پاکستان فورم ملتان کے صدر پروفےسر حمےد اللہ صدےقی اور نظرےہ¿ پاکستان فورم پتوکی کے صدر وقاص احمد خان نے اظہارِ خےال کےا۔ مقررین نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر میں ظلم کی سیاہ رات ختم اور کشمیری عوام کی جدوجہد اور قربانیوں کی بدولت وہاں آزادی کی صبح بہت جلد طلوع ہوگی۔نشست کے دوران ہزارہ پبلک سکول جمبر ، پتوکی کی طالبہ شبانہ رمضان نے آزادی ¿ کشمیر پر ولولہ انگیز تقریر کی۔ اس نشست کی نظامت کے فرائض نظریہ¿ پاکستان فورم آزاد کشمیر کے صدر مولانا محمد شفیع جوش نے بڑی عمدگی سے نبھائے ۔تینوں نشستوں کے مقررین کو نظریہ¿ پاکستان کانفرنس میں شرکت کی یادگاری شیلڈز پیش کی گئیں۔
٭٭٭٭٭