بھارت کسی زعم میں نہ رہے‘ ملک کا دفاع ہماری سول اور عسکری قیادتوں کے مضبوط ہاتھوں میں ہے
مسلح افواج کو بھارتی جارحیت پر فیصلہ کن جواب دینے کا اختیار اور پاکستان کا پانی روکنے کا بھارتی فیصلہ
وزیراعظم عمران خان کی زیرصدارت منعقدہ قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں ملک کی مسلح افواج کو بھارت کی جانب سے جارحیت اور کسی بھی مہم جوئی کا فیصلہ کن اور جامع جواب دینے کا اختیار دیدیا گیا ہے۔ وزیراعظم ہائوس میں یہ اجلاس تین گھنٹے سے زائد عرصہ تک جاری رہا جس میں خزانہ‘ دفاع‘ خارجہ امور کے وفاقی وزرائ‘ مسلح افواج اور حساس اداروں کے سربراہان اور سلامتی سے متعلق حکام شریک تھے۔ اجلاس کے بعد جاری کئے گئے اعلامیہ میں بتایا گیا کہ پاکستان نے پلوامہ واقعہ کی مخلصانہ تحقیقات کرانے کے علاوہ دہشت گردی اور دیگر تنازعات پر ڈائیلاگ کی پیشکش کی۔ ہم توقع کرتے ہیں کہ بھارت اس پیشکش کا مثبت جواب دے گا۔ اجلاس میں طے کیا گیا کہ اگر پلوامہ واقعہ کی تحقیقات یا اس کے نتیجہ میں ملنے والی معلومات یا کوئی اور ٹھوس اطلاع فراہم کی جاتی ہے تو ریاست پاکستان اپنی زمین استعمال کرنے والوں کے خلاف کارروائی کرے گی‘ تاہم بھارت کو بھی بڑی چھان بین کی ضرورت ہے کہ کشمیر کے عوام کیوں موت کے خوف سے بے پروا ہو چکے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فورسز کا تشدد انتہائی نقصان دہ ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ عالمی برادری کشمیر کے دیرینہ مسئلہ کو سلامتی کونسل کی قراردادوں اور کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق حل کرانے کیلئے کردار ادا کرے۔ اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ انتہاپسندی اور دہشت گردی خطہ کے سب سے اہم مسائل ہیں اور پاکستان سمیت پورا خطہ ان سے متاثر ہوا ہے۔ اسی وجہ سے 2014ء میں تمام سیاسی جماعتوں اور قومی اداروں نے نیشنل ایکشن پلان کی تشکیل پر اتفاق کیا۔ ریاست کو لاحق اس براہ راست خطرہ پر توجہ دینے کیلئے اب ضرورت اس امر کی ہے کہ معاشرے سے دہشت گردی اور انتہاپسندی کی مکمل بیخ کنی کی جائے تاکہ ریاست کبھی انتہاپسندوں کی یرغمالی نہ بنے۔ اس ضمن میں وزیراعظم نے وزارت داخلہ اور تمام سکیورٹی اداروں کو ایکشن تیز کرنے کی ہدایت کی۔ اعلامیے کے مطابق اجلاس میں مقبوضہ کشمیر میں جاری بھارتی مظالم کی مذمت کی گئی اور پلوامہ حملے میں پاکستان کے ملوث ہونے کے بھارتی الزامات کو مسترد کیا گیا۔ دوسری جانب ترجمان وزارت داخلہ نے بتایا ہے کہ جماعت الدعوۃ اور فلاح انسانیت فائونڈیشن پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ یہ پابندی قومی سلامتی کمیٹی کے گزشتہ روز کے اجلاس کے فیصلہ کے تحت عائد کی گئی۔
اس امر کی پوری دنیا شاہد ہے کہ پلوامہ خودکش حملہ کے بعد بھارت کے اختیار کردہ انتہائی جارحانہ رویئے اور بدلہ لینے کی دھمکیوں کے باوجود پاکستان نے انتہائی صبروتحمل سے کام لیا اور بھارت کے اشتعال دلانے کے باوجود اسے اس کے لہجے میں جواب دینے سے گریز کیا گیا جبکہ بھارت کو پوری سنجیدگی کے ساتھ یہ پیشکش بھی کی گئی کہ اس کے پاس پلوامہ حملہ میں پاکستان کی سرزمین استعمال ہونے کے کوئی ٹھوس ثبوت موجود ہیں تو وہ حکومت پاکستان کو فراہم کئے جائیں۔ پاکستان متعلقہ عناصر کے خلاف کارروائی عمل میں لائے گا۔ وزیراعظم عمران خان نے بدھ کے روز دیئے گئے پالیسی بیان میں بھارت کو دہشت گردی اورکشمیر سمیت تمام ایشوز پر باضابطہ بات چیت کی بھی پیشکش کی اور ساتھ ہی یہ بھی باور کرا دیا کہ اگر بھارت نے پاکستان پر حملہ کیا تو اس پر سوچ بچار کے بجائے فوری اور مؤثر جواب دیا جائے گا۔ وزیراعظم نے اپنے پالیسی بیان کے ذریعہ درحقیقت بھارت کو یہ احساس دلانے کی کوشش کی کہ دو ایٹمی ممالک کے مابین جنگ ہوئی تو یہ کتنی تباہ کاریوں کی نوبت لائے گی ، اس کا اندازہ لگانا بھی مشکل ہے۔ اس لئے بھارت جنگی جنون سے باہر نکل آئے اور باہمی مذاکرات کے ذریعے دوطرفہ تنازعات حل کرنے کی کوشش کرے۔ اگر بھارت میں ہندو انتہاپسندوں کی نمائندہ بی جے پی کے بجائے کسی فہم و ادراک والی جماعت کی حکومت ہوتی تو وہ اول تو کشمیریوں کا جبروتسلط کے ذریعہ عرصہ حیات تنگ کرنے کے بجائے انہیں حق خودارادیت دے دیتی اور انہیں اس انتہا تک زچ نہ کرتی کہ وہ موت کے خوف سے ہی بے نیاز ہو جائیں۔ اس صورت میں پلوامہ اور اڑی جیسے واقعات کی کبھی نویت ہی نہ آتی مگر ہندو انتہاپسند مودی سرکار نے تو مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوجوں کے مظالم تیز کرنے کے علاوہ پاکستان کے ساتھ سرحدی کشیدگی بھی انتہا کو پہنچا دی اور اس پر سرجیکل سٹرائیکس کی بڑ بھی مارنا شروع کر دی۔
بھارت کی پیداکردہ کشیدگی کی اس فضا میں علاقائی اور عالمی امن و سلامتی کو سخت خطرات لاحق نظر آئے تو اس پر مسئلہ کشمیر اور دیگر تنازعات کے حل کیلئے عالمی قیادتوں اور عالمی اداروں کی جانب سے پاکستان اور کشمیریوں سے مذاکرات کیلئے دبائو بڑھایا جانے لگا مگر مودی سرکار نے پاکستان کی سلامتی کو نقصان پہچانے کے عزائم کا کھلم کھلا اظہار شروع کر دیا۔ اسی طرح روزانہ کی بنیاد پر کشمیریوں کے قتل عام کا سلسلہ بھی شروع کر دیا۔ پلوامہ کا واقعہ بھارت کے پیدا کردہ انہی حالات میں ہوا ہے تو اسے بادی النظر میں کشمیری عوام کی جانب سے ردعمل کا اظہار کہا جا سکتا ہے‘ تاہم بھارتی لوک سبھا کے آنے والے انتخابات کے حوالے سے یہ حملہ بھارتی خانہ ساز بھی ہو سکتا ہے کیونکہ حکمران بی جے پی کو لوک سبھا کے انتخابات میں اپنی شکست نوشتہ دیوار پر نظر آرہی ہے۔ چنانچہ اس نے غالب اکثریت والے ہندو ووٹروں کی ہمدردیاں حاصل کرنے کیلئے بھارت میں پاکستان دشمنی کوفروغ دینے کی پالیسی طے کرکے سرحدی کشیدگی بڑھانا شروع کی۔ یہ سازش مودی سرکار کو اپنے ہی گلے پڑتی نظر آئی تو پاکستان کے خلاف جارحیت کا جواز نکالنے کیلئے ممکنہ طورپر مودی سرکار نے پلوامہ حملے کے ذریعے فضا ہموارکی اور پاکستان پر اس حملے کا ملبہ ڈال کر اسے سبق سکھانے کی دھمکیاں دینے کا سلسلہ شروع کر دیا۔ بھارت کی اس سازشی منصوبہ بندی کی تصدیق اس امر سے ہی ہو رہی ہے کہ وزیراعظم عمران خان کی پلوامہ حملے کی تحقیقات کی پیشکش کو درخور اعتنا نہ سمجھتے ہوئے بھارتی وزیراعظم اور دوسرے حکومتی ذمہ داران نے پاکستان کے خلاف اپنی ہرزہ سرائیاں مزید بڑھا دیں اور بھارتی میڈیا نے پلوامہ حملہ کا پاکستان کو ذمہ دار نہ ٹھہرانے پر سعودی ولی عہد محمد بن سلمان پر بھی چڑھائی کر دی جبکہ گزشتہ روز بھارتی وزیر آبی وسائل نیتن گڈکری نے مقبوضہ کشمیر سے پاکستان جانے والے تین دریائوں کا پانی روکنے کی دھمکی بھی دے دی ہے جو پاکستان دشمنی میں فروغ دی گئی بھارتی انتہا پسند کا بیّن ثبوت ہے۔ گڈکری کے بقول بھارت سرکار نے تین دریائوں راوی‘ بیاس اور ستلج کے پانی کے بہائو کا رخ بھارت کی جانب موڑنے کا فیصلہ کیا ہے جس کا مقصد پاکستان کو ریگستان بنا کر اسے پلوامہ حملے کا سبق سکھانا ہے۔ ڈپٹی واٹر انڈس کمشنر شیراز میمن نے تو بھارتی وزیر کی اس بات کو درفنطنی قرار دیا ہے اور بھارت کو آئینہ دکھایا ہے کہ اس کے پاس ہمارے دریائوں میں آنے والے پانی کو روکنے اور رخ موڑنے کی صلاحیت ہی نہیں ہے‘ تاہم وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بھارتی وزیر کی اس دھمکی کا فوری نوٹس لیا ہے اور عالمی بنک کو متوجہ کیا ہے کہ وہ اس ممکنہ بھارتی حرکت کے روبہ عمل ہونے کی نوبت نہ آنے دے۔ ان کے بقول مقبوضہ کشمیر کے حالات بھارت کی ایسی حرکتوں کے باعث ہی خراب ہوئے ہیں اور اس تناظر میں پلوامہ حملے کی بھارت حکومت ہی براہ راست ذمہ دار ہے۔ انہوں نے نجی ٹی وی چینلز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے یہ بھی باور کرایاکہ بھارت ہماری معقول تجاویز کے بعد کوئی حرکت کرے گا تو اسے بھرپور جواب دیا جائے گا۔
بھارت ہماری سلامتی کے خلاف شروع دن کی جو بدنیتی رکھتا ہے‘ اس کے پیش نظر اس کی جانب سے ہماری جغرافیائی سرحدوں پر جارحیت کے ارتکاب کے بعد ہم پر آبی جنگ مسلط کرنا بھی بعید از قیاس نہیں۔ معمار نوائے وقت محترم مجید نظامی نے تو بھارتی جنگی جنون کی بنیاد پر کئی سال پہلے قوم اور قومی قائدین کو باور کرا دیا تھا کہ بھارت ہم پر آبی جنگ مسلط کرنے سے بھی گریز نہیں کرے گا۔ اس سلسلہ میں انہوں نے نوائے وقت اور دی نیشن میں ’’واٹر بم‘‘ کے عنوان سے سلسلہ وار مضامین لکھ کر بھارت کی ممکنہ آبی دہشت گردی کے توڑنے کیلئے ٹھوس تجاویز پیش کیں اور کالاباغ ڈیم سمیت اپنے دریائوں پر زیادہ سے زیادہ ڈیم بنانے کی ضرورت پر زور دیا۔ آج بھارتی وزیر کی جانب سے پاکستان کا پانی روکنے کے مودی سرکار کے فیصلہ کا اعلان کیا گیا ہے تو کالاباغ ڈیم کو اپنی مفادپرستانہ سیاست کے تحت متنازعہ بنانے والے عناصر کو اپنے گریبانوں میں جھانکنا چاہئے کہ انہوں نے کالاباغ ڈیم کی تعمیر نہ ہونے دیکر کس کی خدمت کی ہے۔
یہ خوش آئند صورتحال ہے کہ بھارتی سازشوں اور جارحانہ عزائم کے خلاف سعودی عرب اور دوسرے مسلم ممالک کے علاوہ چین‘ ایران اور ترکی بھی ہمارے مؤقف کے ساتھ کھڑا ہے اور سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے اپنے دورۂ بھارت میں پاکستان‘ بھارت مذاکرات کی بحالی کیلئے سازگار ماحول کی ضرورت مودی سرکار سے تسلیم کراکے درحقیقت پاکستان کا مؤقف تسلیم کرایا ہے۔ اگر اس کے باوجود بھارت پاکستان کے ساتھ مذاکرات سے گریز کرتا ہے تو وہ پاکستان کی سلامتی کے خلاف اپنی بدنیتی کو اقوام عالم میں خود ہی بے نقاب کرے گا۔ ہمیں بہرصورت بھارت کے کسی بھی جارحانہ اقدام کے توڑ او مؤثر جوابی کارروائی کیلئے ہمہ وقت تیار رہنا ہے جس کیلئے قومی سلامتی کمیٹی نے گزشتہ روز ملک کی مسلح افواج کو اختیار بھی دیدیا ہے۔ قوم کواس حوالے سے مطمئن رہنا چاہئے کہ ملک کا دفاع ہماری سول اور عسکری قیادتوں کے مضبوط ہاتھوں میں ہے جو اپنی قومی ذمہ داریاں نبھانے کے مکمل اہل بھی ہیں اور اس کیلئے ہمہ وقت تیار بھی۔