ہفتہ‘17 ؍ جمادی الثانی 1440ھ‘ 23 ؍ فروری 2019ء
بھارتیوں کی ذہنی پستی کی انتہا
پاکستانیوں کو ہنستا ہوا بھی نہیں دیکھ سکتے
انتہا پسند ہندو نہ صرف پاکستانیوں کو ہنستا ہوا نہیں دیکھ سکتے بلکہ ہر پاکستانی ان کی آنکھوں میں ککروں کی طرح ’’رڑکتا‘‘ ہے۔ پاکستان کا وجود تو ان ’’ٹھینگا‘‘ سوچ رکھنے والوں کیلئے ناقابل برداشت ہے۔ بہرحال برداشت تو کرنا پڑے گا ورنہ بھارت کہیں اور جا بسے اگر ممکن ہے تو… ویسے وہ ہٹ دھرمی چھوڑ کر اور انا کو تہہ کرکے وہ وجہ ہی کیوں ختم نہیں کر دیتا جو دو ممالک کے مابین دشمنی اور تنازع کی بنیاد ہے۔ اس طرف تو وہ آنے کو تیار نہیں۔ البتہ پاکستان کو ملیامیٹ کرنے کے دن کو خواب دیکھتا اور رات کو سازشوں کے جال بنتا ہے۔ پاکستانیوں کو ہنستا نہ دیکھنے کی تفصیل تو طویل ہے تاہم اختصار یہ ہے کہ بھارتی فلم ٹوٹل دھمال کے ہدایت کار اندر کمار نے ایک انٹرویو کے دوران پاکستان سے متعلق اپنی چھوٹی سوچ منظرعام پر لاتے ہوئے کہا ہم پاکستانیوں کو ہنستا ہوا نہیں دیکھنا چاہتے یہی وجہ ہے کہ ہم نے اپنی کامیڈی فلم ٹوٹل دھمال کو پاکستان میں ریلیز نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ہم صرف اپنے ملک کے لوگوں کو تفریح فراہم کریں گے۔ کیا پاکستانیوں نے بھارتیوں کی کامیڈی سے ہی ہنسنا ہے ؟۔ یہ ان کی خام خیالی ہے پاکستان میں ایک سے بڑھ کر ایک کامیڈی ڈرامہ اور فلم ہے۔ روزمرہ زندگی اور معمولات کا جائزہ لیں تو چلتے پھرتے کامیڈین بھی مل جاتے ہیں جو محفلیں جماتے اور مجلسیں گرماتے ہیں۔ بھارت اپنی فلمیں اپنے پاس رکھے۔ وہ سینما مالکان بھی قومی غیرت کا مظاہرہ کریں جن کو کاروبار کیلئے انڈین فلمیں ہی ملتی ہیں۔ بہتر ہے حکومت بھارتی فلموں کی پاکستان میں نمائش پر پابندی لگا دے۔ ویسے آج ورتے بندوں کو اپنی فلموں کی زیادہ ضرورت ہے۔
٭٭٭٭٭
لکھ لیں جب صدی ختم ہو گی تو پاکستان دنیا کی پانچویں بڑی حقیقت ہوگا : وزیر خزانہ اسد عمر
صدی ختم ہونے میں پورے 81 سال پڑے ہیں۔ اسد عمر کی اس وقت جو بھی عمر ہے۔ اندازاً 39 سال لگا لیں اس سے کم تو یقیناً نہیں ہو گی۔ ان کی عمر آج 39 سال ہے تو صدی کے اختتام پر 120 سال ہوگی۔ اللہ ان کو اس سے زیادہ عمر دے۔ اگر کوئی ہوشربا اور کایا پلٹ ٹیکنالوجی نہیں آتی تو آج سے 120 سال بعد ان کے بھی ہم عصر کا سانس لیتے یا پایا جانا ممکن نہیں۔ اگر پاکستان صدی کے اختتام پر دنیا کی پانچویں بڑی معیشت نہ ہوا تو ان سے کون پوچھے گا ؟ اگر دعویٰ ہی کرنا تھا تو دنیا کی سب سے بڑی معیشت اور پاکستان کے مریخ تک پہنچنے کاکر دیتے تو بھی کوئی حرج نہیں تھا۔ پاکستان میں معیشت کو دل سے بام عروج تک پہنچانے کا عزم کرنے اور کوشاں رہنے والے کم اور اس کو ہضم کرنے کی تاک رہنے والے زیادہ ہیں۔ کل کون اقتدار میں رہتا ہے اور معیشت کو عروج تک پہنچاتا ہے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ 120 سال بعد اگر ان کے دعوے کی صداقت سامنے نہ آئی تو وہ اس وقت تاریخ پر نظر رکھنے والوں کو کہہ سکتے ہیں ہماری حکومت اب تک ہوتی تو واقعی میرا کہا درست ثابت ہوتا۔
٭٭٭٭٭
پاکستانی ٹماٹروں کی مانگ بڑھ گئی
بھارتی کاشتکاروں کو دیکھئے انہوں نے پاکستان اور بھارت میں حالات کشیدہ ہوتے دیکھ کر فوری طور پر پاکستان کو ٹماٹروں کی سپلائی روک دی ہے۔ اور سوشل میڈیا پر اچھلتے کودتے یہ غربت کے مارے کسان نت نئے بھاشن دے رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ پاکستان والے ہمارے لال لال ٹماٹر کھا کر ہمارے ہی فوجیوں کو مار رہے ہیں۔ اب وہ یعنی پاکستانی ترسیں گے۔ ہمارے لال لال ٹماٹروں کو ہم انہیں لال ٹماٹر کھانے کیلئے نہیں دیں گے۔ جی تو چاہتا ہے کہ ان لوگوں کو اس خوش فہمی میں رہنے دیا جائے تاکہ ان کے اربوں روپوں کی تیار فصل غارت ہو اور یہ خود گلے سڑے ٹماٹروں کی چتا پر بیٹھ کر خود کشی کریں جس طرح آلو کے کاشتکار اس کی قیمت دو روپے کلو ہونے کی وجہ سے آلو سڑکوں پر پھینک کر احتجاج کر رہے ہیں خود کشیاں کر رہے ہیں۔ اب ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ پاکستانی کاشتکار اور دکاندار بھی حب الوطنی کا ایسا ہی نمونہ پیش کرتے ٹماٹروں کے دام آسمان پر چڑھنے نہیں دیتے۔ مگر افسوس کی بات ہے کہ ہمارے ہاں بھارتی تماشہ بند ہوتے ہی ہمارے بیوپاریوں‘ آڑھتیوں دکانداروں نے عوام کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنے اور اپنی قبر نما تجوریاں انگاروں سے بھرنے کی تیاری شروع کردی۔ اب حال یہ ہے کہ ٹماٹر بازار سے کسی نایاب سبزی کی طرح مہنگے داموں فروخت ہو رہے ہیں۔ حکومتی وزیر اور مشیر اب عوام کو حوصلہ دیتے پھر رہے ہیں کہ مہنگائی پر جلد قابو پا لیا جائے گا۔ مگر سب جانتے ہیں کہ پانی میں مدھانی چلانے سے مکھن کبھی نہیں ملتا۔ اس لئے بہتر تو یہ ہے کہ حکومت تمام ٹی وی چینلز پر عوام کو کھانے پکانے میں ٹماٹر کی بجائے دہی ڈالنے کی ترکیبیں سکھائے اور کھانوں میں بھارتی ٹماٹروں کے استعمال پر پابندی اور پاکستانی دہی کے استعمال کا فتوی بھی لیا جا سکتا ہے۔ اس طرح چلو کچھ لوگ ٹماٹر کی جگہ دہی کے استعمال کو کار ثواب سمجھ لیں گے۔
٭٭٭٭٭
پشاور زلمی کے چیئرمین کی طرف
سے کھلاڑیوں کو کھانے کی دعوت
جب بات ہو کھانے کی تو پشاوری کھانوں کے سامنے آنے پر بھلاہاتھ اور منہ کہاں رک سکتا ہے۔ سو اب پشاور زلمی کے چیئرمین جاوید آفریدی نے اپنی ٹیم کو کھانے کی دعوت دی جس میں شامل مقامی کھانوں نے تو حقیقت میں کھلاڑیوں کو انگلیاں چاٹنے پر مجبور کر دیا۔ پاکستانی تو چلیں ان کھانوں کے عادی ہیں۔ شوقین بھی وہ بلوچستان اور خیبر پی کے میں ان کھانوں سے لطف اندوز ہوتے رہتے ہیں۔ مگر پشاور زلمی کے غیر ملکی کھلاڑی بھی اس دعوت کے بعد پشاوری کھانوں کی تعریف کرتے اور واہ واہ کرتے نظر آئے۔ پشاور کا نمکین روسٹ ہو یا دنبہ کڑاہی‘ چپلی کباب ہو یا تکے اور کباب‘ پلائو ہو یا نان ایک سے بڑھ کر ایک ہوتے ہیں۔ اب دوسری ٹیموں کے مالکان بھی ذرا اپنے اپنے کھلاڑیوں کو اپنے مقامی کھانوں سے روشناس کرانے اور ان سے لطف اٹھانے کا موقع فراہم کریں تو کیا ہی بات ہو۔ غیر ملکی کھلاڑی پاکستان کے چاروں صوبوں اور مختلف خطوں کے مقامی کھانے کھا کر دنیا بھر میں پاکستانیوں کی مہمان نوازی اور ان کے کھانوں کی لذت اور ورائٹی کے چرچے کریں گے تو لامحالہ دنیا بھر کے لوگوں کے دلوں میں بھی پاکستان جا کر وہاں کے لوگوں کی مہمان نوازی اور وہاں کے کھانوں کی لذت سے لطف اندوز ہونے کی خواہش پوری کر سکیں۔
٭٭٭٭٭