وہ قومیں خوش قسمت ہوتی ہیں جن کے لیڈر محب وطن ہوتے ہیں اور ہر حال میں قومی و عوامی مفاد کا دفاع اور تحفظ کرتے ہیں۔ اگر کسی ریاست کا حکمران لیڈر ہی محب وطن نہ ہو تو وہ دشمن ملک کے جارحانہ اور اشتعال انگیز بیانات پر چپ ساد ھ لیتا ہے۔ پاکستان کے عوام ماضی میں اس نوعیت کے عوام دشمن اور ملک دشمن رویے دیکھتے چلے آئے ہیں جب بھی کسی دشمن ملک نے پاکستان کو دھمکی دی تو ماضی کے لیڈروں کی زبانیں گنگ رہیں اور پاکستان کے عوام اپنے لیڈروں کے اس افسوسناک بلکہ شرمناک طرز عمل پر حیرانگی کا اظہار کرتے رہے۔ مگر پاکستان میں چونکہ شخصیت پرستی کا کلچر عام ہو چکا ہے اس لیے عوام حکمران اشرافیہ سے ان کی عوام دشمنی اور ملک دشمنی پر مبنی رویوں کے بارے میں سوال کرنے سے بھی گریز کرتے ہیں جو پاکستانی قوم کا ایک بڑا المیہ ہے۔ پاکستان کا تین بار وزارت عظمیٰ کا اعزاز پانے والے واحد قومی سیاست دان نے ماضی میں قومی مفادات کے خلاف بیانات دیئے آج پاکستان کے دشمن ان کے بیانات کو اپنے دفاع میں پیش کر رہے ہیں۔ انتہائی دکھ کا مقام ہے کہ حقائق سامنے آنے کے باوجود پاکستان کے عوام اپنی اپنی پسند کے لیڈروں سے ترک تعلق پر بھی آمادہ نہیں ہوتے اور اپنے اس طرز عمل سے نہ صرف پاکستان بلکہ پاکستان کے عوام کے کے مفادات کو نقصان پہنچا رہے ہوتے ہیں۔ آج بھی جبکہ بھارت جنگی جنون پیدا کر رہا ہے اور پاکستان کو کھلی دھمکیاں دے رہا ہے۔ ان حالات میں بھی اپوزیشن کے لیڈر بھارت کو جواب دینے کی بجائے اپنے ذاتی‘ گروہی اور سیاسی مفادات کے لیے تن من دھن کی قربانی دینے کے لئے تیار نظر آتے ہیں مگر ملک کی سلامتی اور آزادی کی انہیں کوئی فکر نہیں ہے۔
خدا کا شکر ہے کہ طویل عرصے کے بعد پاکستان کو ایک ایسا لیڈر نصیب ہوا ہے جو محب وطن ہے اور جس نے عملی طور پر پاکستان اور پاکستان کے عوام کے ساتھ اپنی محبت اور وابستگی کے عملی ثبوت پیش کئے ہیں۔ ماضی میں بھارت کے انتہا پسند حکمران نریندر مودی نے جب بھی پاکستان کو للکارا تو پوری قوم نے دیکھا کہ حکمران اشرافیہ نے اپنی آنکھیں بند کر لیں اور وہ پاکستان کے عوام کی تمناؤں آرزوؤں اور توقعات پر پورا اترنے میں بری طرح ناکام ثابت ہوئے اگر ان کے دلوں میں پاکستان اور عوام کے لیے محبت ہوتی تو وہ مودی کے جارحانہ بیانات کے جواب میں ڈٹ کر بیان جاری کرتے۔ پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے بھارتی وزیراعظم مودی کے جارحانہ بیان کے جواب میں جو متوازن دلیرانہ اور مدبرانہ بیان جاری کیا ہے اسے نہ صرف پاکستان کے عوام بلکہ عالمی رائے عامہ بھی سراہ رہی ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے بھارت کو دہشت گردی سمیت تمام متنازعہ امور پر مذاکرات کی کھلی دعوت دی ہے۔ انہوں نے یہ یقین دہانی بھی کرائی ہے کہ اگر بھارت حالیہ دہشت گردی کے بارے میں ٹھوس ثبوت لائے اگر دہشتگردوں کا تعلق پاکستان سے ثابت ہوجائے تو ان کو قرار واقعی سزا دی جائے گی۔ عمران خان نے بھارت کو یہ بھی انتباہ کیا ہے کہ اگر اس نے پاکستان کے خلاف جارحیت کی تو پاکستان سوچے گا نہیں بلکہ فوری طور پر جارحیت کا جواب دے گا۔ عمران خان نے درست کہا ہے جنگ مسائل کا حل نہیں ہے۔ امریکہ سمیت دنیا کے تمام بڑے ممالک اب اس نتیجے پر پہنچ چکے ہیں کہ عالمی تنازعات کو جنگوں سے نہیں بلکہ مذاکرات سے ہی حل کرنا پڑے گا۔ امریکہ کے افغانستان کے طالبان کے ساتھ حالیہ مذاکرات اس سوچ کا ٹھوس ثبوت ہیں بھارتی حکمرانوں کو بھی ہوش کے ناخن لینے پڑیں گے اور یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ ان کی کشمیر پالیسی بری طرح ناکام ہو چکی ہے اور کشمیر کے عوام ان کے جبر و تشدد ظلم و ستم کے سامنے جھکنے کے لیے ہرگز تیار نہیںہیں بھارتی حکومت کو یہ بھی سوچنا چاہیے کہ تشدد اور دہشت سے تشدد و دہشت جنم لیتی ہے ۔کشمیر کی آزادی کے لیے جدوجھد کرنے والے نوجوانوں کو اس حد تک مجبور نہ کیا جائے کہ وہ خودکش بمبار بن جائیں۔
پاکستان کی سفارتکاری بڑی کامیاب رہی ہے کیونکہ اس کی بنیاد سچ پر رکھی گئی ہے ۔نیا پاکستان فیصلہ کرچکا ہے کہ وہ کسی قسم کی دہشت گردی کی حمایت نہیں کرے گا اور اس کی پوری توجہ معاشی استحکام کی جانب ہوگی۔ بھارتی حکمرانوں کو نئے پاکستان کی نئی سوچ کا ادراک کر لینا چاہیے اور گفتگو کے ذریعے تنازعات کو حل کرنے کی تجویز قبول کر لینی چاہیے- دنیا کے ممالک برطانیہ امریکہ چین اور سعودی عرب بھی بھارت کو یہی مشورہ دے رہے ہیں کہ وہ پاکستان کے ساتھ جامع مذاکرات کا آغاز کریں تاکہ جنوبی ایشیا امن اور سکون کا گہوارہ بن سکے معاشی ترقی کے امکانات سے بھرپور فائدہ اٹھا سکے۔
سعودی عرب کے پرنس محمد بن سلمان کا دورہ ہر لحاظ سے تاریخی اور یادگار رہا ہے۔ البتہ سینئر سفارت کاروں نے پروٹوکول کی خامیوں کی نشاندہی کی ہے جن کی جانب حکومت کو توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ جب بھی غیرملکی سربراہ پاکستان کا دورہ کرتے ہیں تو ان دوروں کے ساتھ پاکستان کا وقار وابستہ ہوتا ہے جس کا ہر طرح سے خیال رکھنا لازمی ہوتا ہے۔ لہٰذا ضروری ہے کہ صدر پاکستان وزیراعظم پاکستان اور وفاقی وزرا دوروں سے پہلے پروٹوکول آفیسروں سے بریفنگ لیں تاکہ کسی قسم کا سقم اور خامی نظر نہ آئے قومی سلامتی کے اجلاس میں یہ درست فیصلہ کیا گیا ہے کہ قومی ایکشن پلان پر سنجیدگی کے ساتھ عملدرآمد کیا جائے اور کالعدم تنظیموں کے خلاف موثر کارروائی کی جائے تا کہ عالمی سطح پر پاکستان کا مقدمہ مضبوط ہو کہ پاکستان صرف زبانی بیانات ہی جاری نہیں کر رہا بلکہ وہ عملی طور پر بھی دہشت گردوں اور انتہا پسندوں کے خلاف مؤثر اور نتیجہ خیز کارروائی کر رہا ہے -جیسا کہ پاکستان نے ماضی میں دہشتگردی کے خلاف موثر جنگ لڑ کر عالمی رائے عامہ کا اعتماد حاصل کیا تھاالبتہ افسوس ناک امر یہ ہے کہ گزشتہ حکومت نے پنجاب میں نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد نہیں ہونے دیا تھا۔ پاکستان کے عوام سے دست بستہ عرض گزار ہوں کہ پاکستان کا سب سے بڑا دشمن بھارت کا وزیر اعظم مودی پاکستان کو جنگ کی کھلی دھمکیاں دے رہا ہے ان حالات میں ان پر یہ قومی فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ متحد اور منظم رہیں اور ایسے سیاستدانوں کے سہولت کار نہ بنیں جو اپنی کرپشن کو بچانے کے لیے ہر قسم کا انتہائی قدم اٹھانے کے پر تیار نظر آتے ہیں یہاں تک کہ انہوں نے قومی سلامتی کے تقاضوں کو یکسر نظرانداز کرتے ہوئے حکومت کے خلاف تحریک چلانے کا بھی اعلان کردیا ہے۔ سیاستدان اپنے رویوں منافقت اور منفی سیاست کی وجہ سے بے نقاب ہو چکے ہیں اور ان کے متضاد بیانات ویڈیو ریکارڈ کی صورت میں موجود ہیں جو مختلف ٹی وی چینلوں پر نشر ہوتے رہتے ہیں ان کو دیکھ کر بھی اگر عوام قومی شعور اور حب الوطنی کا ثبوت نہیں دیں گے تو وہ اپنی اور اپنی نسلوں کے مستقبل کو داؤ پر لگا رہے ہوں گے۔ اللہ تعالی سے عاجزانہ دعا ہے کہ وہ سوہنی دھرتی کو تا قیامت محفوظ و مامون رکھے اور پاکستان کے عوام کو دوست اور دشمن کے درمیان امتیاز کرنے کی صلاحیت اور توفیق عطا فرمائے۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024