قومی سلامتی کمیٹی نے پلوامہ حملے پر بھارتی الزامات کومسترد کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ ر یا ست پاکستان کسی بھی طور پلوامہ حملے کے واقعے میں ملوث نہیں ، ساتھ ہی وزیر اعظم نے مسلح افواج کو یہ اجازت دی کہ بھارت کی جانب سے کسی بھی جارحیت یا مہم جوئی کا جا مع اور فیصلہ کُن جواب دیا جا ئے ۔یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ماضی میں مسلم لیگ ن کے دور حکومت میں اس وقت کے وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کی بھارت نواز پالیسی نے وطن عزیز کو بہت نقصان پہنچایا، انہوں نے اپنے دور حکومت میں کبھی بھی کسی بھارتی زیادتی کی مذمت نہیں کی حتیٰ کہ کل بھوشن یادیو کی گرفتاری کے بعد بھی کبھی بھارت یا کل بھوشن کے خلاف کوئی بات نہیں کی بلکہ الٹا ’’ڈان‘‘ میں انٹرویو دیتے ہوئے ممبئی حملوں میں پاکستان کی ذمہ داری قبول کرلی اور بھارت نے اسی اخبار کو گذشتہ روز عالمی عدالت میں کل بھوشن کے مقدمہ میں بطور ثبوت پیش کرتے ہوئے اس کا حوالہ دیا، ہمارے پاس کسی کو غدار قرار دینے کا اختیار نہیں لیکن عقل کام نہیں کررہی کہ پھر ڈان لیکس اور ڈان اخبار میں میاں نواز شریف کے دئیے گئے انٹرویو میں ممبئی حملوں میں شمولیت کے اقرار کو کیا کہا جائے حماقت، غیر ذمہ داری یا پھر جان بوجھ کر پاکستان کو عالمی سطح پر ایک ایسی دہشت گرد ریاست قرار دلانا جو ہمسایہ ملکوںمیں بم دھماکے کراتی ہے جبکہ سادہ سے سادہ الفاظ میں ناخواندہ افراد اس عمل پر براہ راست غداری کا فتویٰ صادر کردیں گے، لیکن ہم ایسا نہیں کرسکتے کیونکہ صاحب علم ہونا بھی بعض اوقات انسان کو ایسی مشکل میں ڈال دیتاہے کہ وہ سب کچھ دیکھتے ہوئے بھی زبان کو قابو میں رکھنے پر مجبور ہوجاتا ہے اور حقائق بیان کرنے کے قابل نہیں رہتا، اسی بنا پر آج ہم خود کو انتہائی مجبور اور لاچار محسوس کر رہے ہیں کہ سمجھتے بوجھتے احتیاط کا دامن تھامے ہوئے قلم پر قدغن عائد کئے آگے بڑھ رہے ہیں۔
بہرحال وزیراعظم کی زیر صدارت منعقدہ قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میںشرکا نے ملک کی اندرونی و سرحدی سیکیورٹی کی صورت حال کا جائزہ لیا جبکہ جیو اسٹریٹجک صورت حال اور پلوامہ واقعے کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال پربھی غور کیاگیا، ملک کی سیا سی و عسکری قیادت نے قرار دیا کہ ریاست پاکستان اس واقعے میں کسی بھی طور اور کسی بھی ذریعے سے ملوث نہیں، پلوامہ حملہ مقامی سطح پر سوچا گیا، پلان ہوا اور عمل کرایا گیا، ا س ضمن میں پاکستان نے مخلصانہ طور پر بھارت کو واقعے کی تحقیقات کی پیش کش کی ہے، اس کے علاوہ پاکستان نے دہشت گردی سمیت دیگر متنازعہ امور پر مذاکرات کی بھی پیشکش کی ہے۔ شرکاء نے کہا کہ ہم توقع کرتے ہیں کہ بھارت پا کستان کی جانب سے کی گئی پیشکش کا مثبت جواب دے گا۔ قومی سلامتی کمیٹی نے اس عزم کا اظہارکیا کہ اگر تحقیقات میں ثابت ہو یا ٹھوس ثبوت فر ا ہم کر دیا جا ئے تو ریا ست پاکستان اپنی سرزمین استعمال کرنے میں ملوث پا ئے جانے والے کسی بھی فرد کے خلاف ایکشن لے گی تاہم بھارت کو یہ غور اور احسا س کرنے کی ضرورت ہے کہ مقبوضہ کشمیر کے عوام کو کیوں اب موت کا خوف نہیں رہا۔
مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فورسز کی جانب سے تشدد کا استعمال بھی منفی نتائج مرتب کر رہا ہے، عالمی برادری کو چا ہئے کہ مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کی قراردادوں اور کشمیر یوں کی خوا ہشات کے مطابق حل کرنے میں اپنا کردار ادا کرے۔
جہاں تک پلوامہ دھماکے کا تعلق ہے تو اس واردات میں جتنا اسلحہ استعمال ہوا ہے اتنا شائد تمام کشمیریوں کے پاس بھی نہ ہو البتہ اس امکان کو رد نہیں کیا جاسکتا کہ بھارتی فوج نے جموں میں پہاڑوں کو توڑنے کے لئے جو اسلحہ اور گولہ بارود وہاں رکھا ہوا تھا اس کو اس دھماکہ میں استعمال کیا ہو کیونکہ یہ دھماکہ کوئی چھوٹا موٹا دھماکہ نہیں تھا بلکہ اس دھماکے کا سائز اس امر کا بیّن ثبوت ہے کہ اس میں بھاری مقدار میں گولہ بارود استعمال کیا گیا ہے اور یہیں بھارت مار کھاگیا کیونکہ اگر بھارت پاکستان کے ساتھ مل کر تحقیقات کرتا ہے یا کسی بین الاقوامی ایجنسی یا اقوام متحدہ کو تحقیقات کی دعوت دیتا ہے تو وہ پہلی نظر میں ہی اس حقیقت تک پہنچ جائیں گے کہ یہ بارود خود بھارتی فوج نے اپنی نگرانی میں لاکر وہاں جمع کیا اور پھر اس کو اڑادیاکیونکہ اتنی بڑی مقدار میں گولہ بارود کی نقل و حمل بھی کوئی آسان کام نہیں خاص طور پر ایسے علاقے میں جہاں تحریک آزادی جاری ہو اور سات لاکھ سے زیادہ فوج اس تحریک کو کچلنے کے لئے متعین ہو وہ تو ایک ایک فرد کو عقاب کی نظروں سے دیکھتے ہیں پھر کیسے ممکن ہے کہ کوئی فرد نجی ذرائع سے اتنی بھاری مقدار و تعداد میں گولہ بارود بھارتی فوج کے کانوائے کے پاس لے جاکر اس کو اڑانے میں کامیاب ہوگیا۔ علاوہ ازیں ایک اور بات بھی اس دھماکے میں بھارتی ہاتھ کا ثبوت ہے کہ مرنے والے تمام فوجی جوان دلت تھے ۔
یہ حالات و واقعات اپنی جگہ لیکن حقیقت یہی ہے کہ چونکہ بھارت میں انتخابات ہونے والے ہیں اور نریندر مودی سرکار انتخابات میں شکست کھارہی ہے،اسے عوام میں ہمدردی حاصل کرنے کے لئے ایسے ہی اقدام کی ضرورت ہے اور اس نے وہی کیا کہ خود کو مظلوم ثابت کرنے کے لئے معصوم دلتوں کو اڑوادیا اور الزام پاکستان پر دھر دیا لیکن بھارتی عوام بھی اپنی سرکار کے ان ہتھکنڈوں سے آشنا ہوچکے ہیں اس لئے ذرائع ابلاغ میں بھی اس بارے میں مختلف سوالات اٹھائے جارہے ہیں جبکہ بھارتی سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس مرکنڈے کاٹجو نے کہا ہے کہ پلوامہ واقعہ پر بدلے کا شور مچانے والے مت بھولیں کہ پاکستان نیوکلیئر طاقت ہے کوئی مذاق نہیں۔ بھارتی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان کو ہر گز سرپرائز نہیں دیا جا سکتا، پاکستانی فوج تیار ہے، لائن آف کنٹرول کراس تو کریں دوسری جانب سے بھرپور ردعمل آئے گا۔ جسٹس مرکنڈے کا کہنا ہے کہ بھارتی رہنماؤں کی نا اہلی کی وجہ سے آج کشمیریوں کی اکثریت ہتھیار اٹھانے والوں کی حامی اور بھارت کی مخالفت میں کھڑی ہے۔ پلوامہ واقعے کے بدلے میں بے گناہ افراد کو نشانہ بنا کر بھارت پُرامن کشمیریوں کو بھی تشدد پر اکسانے کا باعث بنے گا۔ریٹائرڈ جسٹس مرکنڈے کاٹجو کے الفاظ بھارت سرکار کے لئے قابل غور ہیں اور یہی عاقلانہ مشورہ ہے، کیونکہ یہ 65 ء یا 71 نہیں ہے بلکہ 2019ء ہے جبکہ پاکستانی فوج بھی تین عشروں سے حالت جنگ میں ہے اور خاص طور پر دہشت گردوں سے ڈٹ کر مقابلہ کررہی ہے اور دہشت گردی کے خلاف امریکہ کی شروع کی گئی عالمی جنگ میں بھی ہراول دستے کا کام کررہی ہے، دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہم نے ستر ہزار شہریوں اور فوجی جوان و افسروں کیقربانی دی ہے، ہماری مسلح افواج تین عشروں سے حالتِ جنگ میں ہونے کی بنا پر جنگ میں اتنی مہارت حاصل کرچکی ہیں کہ بھارت جیسے دشمن کو تو ایک ہی جھٹکے میں چاروں شانے چِت کردیں گی کیونکہ ہمارے فوجی جوانوں کے لئے غازی یا شہید دونوں رتبے اعزاز ہیں جبکہ بھارتی فوجیوں کو مقبوضہ کشمیر میں نہتے شہریوں کا مقابلہ کرنے کی عادت ہے وہ ہمارے جوانوں کے سامنے چند منٹ رکنے کی بھی ہمت نہیں کرسکتے۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024