بھارت میں عام انتخابات جوں جوں قریب آرہے ہیں مودی ایسا جال بچھارہے ہیں جس سے انتہا ء پسند ہندو اشتعال میں آجائیں اور انتخابات میں اندھادھند انہیں ووٹ دیکر کامیاب کرائیں تاکہ مودی مزید پاکستان کو سبق سکھانے کے زبانی دعوے کرتا رہے۔ مودی کی انتہاء پسندی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں اور انکی ساری سیاست مذہبی منافرت پر منحصر ہے اور بھارت میں ہندومسلم فسادات کے ماسٹر مائنڈ رہے ہیں اور اب کشمیر میں نہتے مظلوم عوام پر ظلم کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں اور میڈیا رپورٹ کے مطابق کشمیر میں قابض بھارتی فوج کشمیری خواتین سے زیادتی کے واقعات میں ملوث ہے اور یہ تمام مظالم مودی کے حکم پر کئے جارہے ہیں لیکن ان اوچھے ہتھکنڈوں سے 70سالہ کشمیر کی آزادی کی تحریک کسی صورت ختم نہیں کی جاسکتی۔ اب تو بھارتی ٹاؤٹ کشمیر کے مقامی سیاستدانوں کو بھی اس بات کا ادراک ہوچکا ہے کہ کشمیر کا مسئلہ فوج یا اسلحے سے حل نہیں ہوگا بلکہ مسئلہ کشمیر صرف اور صرف مذاکرات سے ہی حل ہوگا ۔ بھارت کے کشمیر میں مظالم کا سلسلہ جوں جوں بڑھتا چلاجارہا ہے اسی قدر تحریک آزادی میں تیزی آتی جارہی ہے جس سے مودی سرکار حواس باختہ ہوکر اوچھے ہتھکنڈوں پر اترآئی ہے اور اب اپنے ہی فوجی قافلوں پر حملے کراکے پاکستان کو بدنام کرنے کا جال بچھایا گیا ہے۔۔
مودی سیاست میں اپنی فتح کے لئے کچھ بھی کرسکتا ہے اور کشمیر میں اپنے ہی فوجی قافلوں پر حملے تو صرف اس کی ابتداء ہے۔ اپنے ہی فوجی قافلے پر حملہ اسی لئے کیا گیا ہے کہ بھارت نے چن چن کر سکھ فوجیوں کو کشمیر میں تعینات کررکھا ہے اور سکھ فوجیوں کو مار کر ایک تیر سے دوشکار کئے جارہے ہیں۔ ایک طرف پاکستان پر دہشت گردی کا الزام لگاکر دنیا میں پاکستان کو دہشت گردی میں ملوث قرار دینے کی کوشش ہورہی ہے تو دوسری طرف خالصتان میں سکھوں کی آزادی کی تحریک سے پاکستان کی دوری پیدا کرنے کے لئے سکھ فوجیوں کو کشمیر میں خودمروا کر الزام پاکستان پر عائد کیا جارہا ہے۔
مودی نے اپنی انتخابی مہم شروع کردی ہے اور بھارتی عوام کو سمجھ لینا چاہئے کہ مودی جیسے حکمران اگر ان کے ملک پر مسلط رہے تو خطے میں صرف اسلحے کے انبار ہی لگتے رہیں گے اور عوام کی فلاح و بہبود کا کوئی کام نہیں ہوسکے گا۔ دونوں ملکوں کی باہمی کشیدگی میں امریکہ ہمیشہ خوش ہوتا ہے کیونکہ اس کو اپنی معیشت چلانے کے لئے امریکی اسلحے کے خریدار آسانی سے دستیاب ہوتے ہیں جو ہر سال اپنے دفاعی بجٹ میں مسلسل اضافہ کرکے امریکہ و یورپی ممالک سے اسلحہ خریدتے ہیں کیونکہ دونوں ممالک کے باہمی تعلقات کشیدہ رہتے ہیں اور بھارت کی توسیع پسندانہ پالیسیوں کے باعث پاکستان بھی مجبوراً اپنے دفاعی بجٹ میں اضافہ کرتا ہے ۔ اگر پاکستان اسلحے کی دوڑ میں بھارت سے پیچھے رہ جاتا تو خدانخواستہ بھارت نیپال و دیگر چھوٹے ممالک کی طرح ایک دن میں ہی اس پر قابض ہونے کی صلاحیت کا حامل ہوتا لیکن ہماری خوش قسمتی ہے کہ ہم بھارت کو ہر محاذ پر ترکی بہ ترکی جواب دینے کی مکمل صلاحیت رکھتے ہیں بلکہ دفاعی و جارحانہ معاملات میں ہم بھارت سے کئی میدانوں میں آگے ہیں اسی لئے بھارت صرف زبانی سرجیکل اسٹرائیک جاری رکھے ہوئے ہے ٹماٹروں کی پاکستان تجارت روک کر پاکستان کو نقصان پہنچانے کے دعوے کئے جارہے ہیں۔
بھارت میں پاکستانی سفارتی عملے اور زائرین کو ہراساں کرکے مودی تسکین کی تلاش میں ہے کیونکہ فوجی محاذ پر مکمل ناکامی سب کے سامنے ہے اور بھارت میں اتنی جرات نہیں کہ وہ پاکستان پر جارحیت کا سوچ سکے۔ اب سندھ طاس معاہدے کے خاتمے کی دھمکی دی گئی ہے۔ بھارتی آبی جارحیت کا سلسلہ تو پہلے سے جاری ہے اور یہ اتنا وسیع موضوع ہے جس پر کتاب تک لکھی جاسکتی ہے ۔ بھارتی آبی جارحیت کے خاتمے کے لئے ہمیں جلد ازجلد چھوٹے بڑے زیادہ سے زیادہ آبی ذخائر تعمیر کرنے چاہئیں۔
بھارت کی تمام تر دھمکیوں کا جواب وزیراعظم عمران خان نے دوٹوک بیان میں دے دیا ہے کہ اگر بھارت نے پاکستان پر جارحیت کی تو ہم ہر صورت اس کا بھرپور اور منہ توڑ جواب دیں گے۔ اسی لئے بھارت ایسی کسی حرکت سے باز رہے۔ اب وزیرخارجہ نے اقوام متحدہ سے بھی پاک بھارت کشیدگی میں خاتمے میں کردار ادا کرنے کی درخواست کی ہے۔ ڈاکٹر ملیحہ لودھی نے بھی اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل سے ملاقات کرکے کشیدگی کے خاتمے میں کردار کی درخواست کی ہے اور اقوام متحدہ نے بھی کردار ادا کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے۔
پاکستانی حکومت نے کشمیر میں بھارتی فوج پر حملے کا الزام پاکستان پر عائدکئے جانے پر اصولی موقف اپنایا ہے کہ بھارت ہمیں انٹیلی جنس رپورٹس دے تاکہ ہم بھی حملے آوروں کی نشاندہی میں اس کی بھرپور مدد کرسکیں ۔ بھارتی عوام سمیت دنیا بھر کے لوگ اس بات سے اچھی طرح واقف ہیں کہ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سب سے زیادہ جانی و مالی قربانیاں بھی دی ہیں اور دنیا میں سب سے موثر کارروائی کی صلاحیت بھی پاکستان کے پاس ہے۔ پاکستان خود دہشت گردی سے سب سے زیادہ متاثر ہونیوالا ملک ہے تو کیونکر کسی دہشت گردی کی حمایت کرسکتا ہے؟ بھارتی عوام اپنے حکمرانوں سے سوال کریں کہ جب کشمیر میں 7لاکھ بھارتی فوج کئی دہائیوں سے تعینات ہے تو وہاں کسی قسم کی دہشت گردی کی کارروائی اگر ہوتی ہے تو ا س کی ذمہ داری کس پر عائد ہوگی؟
بھارتی عوام کو آئندہ انتخابات میں مودی اور دیگر انتہاء پسند مافیاز سے جان چھڑاکر امن‘ بھائی چارے‘ عوامی فلاح و بہبود کے دعوے کرنے والی پارٹی کو منتخب کرنا چاہئے تاکہ خطے میں دیرپا امن قائم ہواور عوام کا پیسہ اسلحے کے انبار کے بجائے عوام کی فلاح پر خرچ کیا جاسکے۔ مودی نے عوام کو بیوقوف بنانے کے لئے اوچھے ہتھکنڈوں کا آغاز کردیا ہے اور توقع ہے کہ جوں جوں بھارتی عام انتخابات قریب تر آتے جائیں گے بھارتی سرکار خود اپنے ملک میں ایسے واقعات کرائے گی اور روایتی طور پر الزام پاکستان پر عائد کیا جائے گااور انتخابات میں دعویٰ کیا جائے گا کہ پاکستان سے نبردآزما ہونے اور ترکی بہ ترکی جواب دینے کی صلاحیت صرف مودی میں ہے اسی لئے انہیں منتخب کیا جائے۔
یہ میڈیا اور معلومات کا دور ہے اور حقائق کسی سے ڈھکے چھپے نہیں رہ سکتے۔ بھارتی عوام مذہبی منافرت کی سوچ سے ہٹ کر حقائق دیکھے اورخطے میں امن کے قیام کے لئے اپنے ملک میں درست لیڈرشپ کا انتخاب کرے ورنہ مودی جیسے موذی سیاستدان صرف زبانی جمع خرچ کرکے اقتدار پر قابض رہیں گے اور عوام کا ہر گزرتے دن کے ساتھ حال مزید ابتر ہوتا چلا جائے گا۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024