’’جرمنی۔ دوسری یورپی جنگ کے بعد‘‘
مکرمی! چند سال قبل جرمنی ریلوے کے انجینئر جوہانسن گفتگو کے دوران راقم کو بتایا کہ یورپ میں دوسری جنگ کے دوران اتحادی فوجوں کی بمباری سے جرمنی کا ہر بڑا شہر اور کارخانے تباہ‘ برباد ہو چکے تھے جس کیساتھ جرمنی بھی دو حصوں میں تقسیم ہو چکا تھا۔ سب سے بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ جرمن قوم کی مین پاور (مردوں کی تعداد) بالکل مفقودہو چکی تھی۔ ہر طرف بے بس عورتیں اور یتیم بچوں کی چیخ و پکار سنائی دیتی تھی۔ آدمی بہت کم نظر آتے تھے۔ اس وقت جرمنی کے چانسلر (صدر) کونارڈ ایڈن آور اپنی ٹیم کے چند آدمیوں کے ساتھ ہر تباہ حال کارخانے کا دورہ شروع کیا اور ان کی مشکلات کا ازالہ کرتے ہوئے فی الفور مالی امداد کے چیک دینے لگا۔ جوہانسن نے بتایا کہ دو سال کے اندر ہی ہمارے کارخانوں سے موٹریں تیار ہوکر مارکیٹ میں آگئیں۔ فوکس ویگن کا کارخانہ بھی چل نکلا۔ جرمنی نے سب سے پہلے ٹیپ ریکارڈر اور ریڈیو دنیا میں پھیلا دیئے اور پھر ہر قسم کی مشینری بھی تیار ہونے لگی۔ چانسلر کونارڈ ایڈن آور نے ترکی اور دیگر ممالک سے لیبر یعنی مین پاور منگوائی اور عورتوں سے کہا کہ وہ ہر صورت بچے پیدا کریں تاکہ جرمنی میں آئندہ آنے والے دور میں مردوں کی کمی دور ہو سکے۔ جاپان‘ چین‘ کوریا اور تائیوان نے اپنی مدد آپ کے تحت ترقی کی ہے۔ 1947ء کے بعد آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک نہیں بنے تھے۔ پھر بھی ہمارے لوگ اپنی حیثیت سے گزارہ کر لیتے تھے۔ قوم پر کسی قسم کا دبائو نہ تھا جو آجکل ہمارے اوپر تھوپ دیا ہے۔ کاش ہم بھی کوئی کونارڈ ایڈن آور پیدا کر سکیں۔
(اختر مرزا۔ گلبرگ 5 لاہور)