پھر بستی کے اک کوچے سے
اک چیخ کہیں سے ابھری ہے
اک کرب کہیں سے ابھرا ہے
یہ درد کہاں سے آیا ہے
درد تو وہ ہی محسوس کر سکتا ہے جس کی کائنات اجڑ گئی جس کیلئے زندگی اور موت میں فرق تلاش کرنا مشکل ہو گیا۔ سانحہ ماڈل ٹائون‘ سانحہ ساہیوال اور پھر سانحہ سکھر کے ایک غریب پائپ فٹنگ کا کام کرنے والے مزدور کا بیٹا ڈاکٹرز کی ہڑتال کی نذر ہو گیا۔ اس کا ایک بچہ پانچ سال قبل ڈاکٹرز کی غفلت کی وجہ سے مر گیا تھا۔ مزمل کا کہنا ہے کہ اس دن بھی ڈاکٹرز کی ہڑتال تھی اور کچھ روز قبل جب وہ اپنے بیٹے کو معمولی تکلیف کے سبب علاج کیلئے سکھر کے سول ہسپتال میں لایا تو اس دن بھی ڈاکٹرز کی ہڑتال تھی۔ اس کا کہنا ہے کہ میرے دونوں بیٹے ڈاکٹرز کی ہڑتال کی نذر ہو گئے۔ اس موقع پر مجھے کہ حلف نامے کی عبارت یاد آرہی ہے جو ڈاکٹرز حلف اٹھاتے وقت پڑھتے ہیں کہ وہ صدق دس سے انسانیت کی خدمت کریں گے اور ہر مرحلے اور ہر حال میں انسانی زندگی کی حفاظت کریں گے۔ انسانیت کی تکریم اور جان و مال کا تحفظ تو فرض اولین ہے۔ اب چاہے وہ ڈاکٹرز کی ذمے داری ہو یا ریاست کی۔ مزمل کا المیہ تو یہ ے کہ اس کے پاس کوئی اور چارہ کار ہی نہ تھا کہ وہ سرکاری ہسپتال میں اپنے بچے کا علاج کرائے۔ جہاں علاج کی سہولیات‘ مشینری‘ ادویات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ جہاں غفلت اور لاپروائی سے سینکڑوں واقعات جنم لیتے ہیں اور بے موت مر جاتے ہیں۔ یہ درست ہے کہ دکھ نظر نہیں آتا‘ لیکن غریب کادکھ تو کسی کو بھی نظر نہیں آتا اور یہی دکھ اس کی زندگی کا وہ روگ بن جاتاہے کہ وہ یہ کہنے پر مجبور ہو جاتاہے کہ؎
میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں
تما م شہر نے پہنے ہوئے ہیں دستانے
سکھر کے سول ہسپتال میں مرنے والا بچہ ایک سوالیہ نشان چھوڑ گیاکہ مدینہ جیسی ریاست کے قیام میں اولین فرض جان و مال کا تحفظ ہے۔ تو مزمل جیسے کتنے غریب‘ بے کسی اور بے حسی کی نذر ہوکر اپنے بچوں کے لاشے اٹھانے پر مجبور ہیں۔ دوسری طرف یہ واقعہ ہسپتال کی حالت زار کی بھی غمازی کرتاہے کہ جہاں غریب علاج کروانے پر مجبور ہے۔ ہمارے پاس امثال تو بہت ہیں کہ حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ اگر دریائے فرات کے کنارے بکری کا بچہ بھی پیاسا مر جائے تو میں جواب دہ ہوں۔‘‘ لیکن ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم اس قسمکے واقعات چاہے سانحہ ماڈل ٹائون ہو‘ سانحہ ساہیوال ہو یا سانحہ سکھر ۔فراموش کر دیتے ہیں اور لواحقین انصاف کے منتظر رہ جاتے ہیں۔ پھر دوسرا اورتیسرا واقعہ جنم لیتا ہے۔ واقعات کا تسلسل رہتا ہے۔ لواحقین کی مالی مدد تو کر دی جاتی ہے‘ لیکن مجرموں کو قرارواقعی سزا نہیں ملتی۔ ہمیں تو ان قوانین کی ضرورت ہے جو مجرموں کو قانون کے کٹہرے میں کھڑا کریں۔ جنوبی پنجاب کی ترقی اور فلاح کا جو عزم وزیراعلیٰ پنجاب نے کیا ہے کہ ابھی تک شرمندہ تعبیر نہ ہو سکا ۔ اسی لئے عوام بغیر علاج اور بغیر سہولت ے کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ مل اور اس جیسے کتنے مزدو جب ان ہسپتالوںکارخ کرتے ہیں‘ تو بچے کی میت کو کاندھے پر اٹھا کر گھر لانے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ ایک غریب کی آنکھ سے بہتاآنسو اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ امیر کیلئے معیار زندگی اور ہے اورغریب کیلئے اور ہے اور اسی تفاوت نے احساس محرمومی کو جنم دیا ہے۔ حکومت وقت کی اس موقع پر یہ اہم ذمے داری ہوتی ہے کہ اس واقعات کا نوٹس لے۔ غریب کوسستا اور مفت علالج مہیا کرے اور غفلت اور کوتاہی برتنے والوں کے خلاف سخت اقدامات کرے تاکہ مستقبل میں بے حسی اور غفلت کے سبب جنم لینے والے واقعات کا سدباب ہو سکے۔ اس کیلئے ضروری ہے کہ ہمارے دلوں میں محروم طبقات کیلئے کام کرنے کا جذبہ‘ احساس مروت‘ قانون کی بالادستی‘ انسانیت کی تکریم کا جذبہ بدرجہ اتم موجود ہو تاکہ آگے چل کر اس کے مثبت اثرات مرتب ہوں او رغریب کیلئے عرصہ حیات تنگ نہ ہو اور یہ صرف اسی صورت ممکن ہے کہ ہمارے اندر خوف خدا اور جوابدہی کا اصول کارفرما ہو۔ وگرنہ سانحہ ماڈل ٹائون‘ سانحہ ساہیوال اور سانحہ سکھر جیسے کتنے واقعات جنم لیتے رہیںگے۔ منیر نیازی کے بقول؎
اس شہر سنگدل کو جلا دینا چاہئے
پھر اس کی خاک کو بھی اڑا دینا چاہئے۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024