ایک قانونی کارروائی کے لئے ضروری کاغذات کی تکمیل کے لیئے تھانے جانا ضروری تھا ۔ شدید سردی تھی لیکن اپنے دوست کی خاطر ہم ان کے ہمرا ہ تھانے پہنچے۔ معلوم ہوا کہ متعلقہ پولیس آفیسر موجود نہیں۔ کچھ دیر انتظار کیا جائے۔ ہم نے کچھ دیر توقف کیا اور پھر اپنی عادت کے مطابق مشاہدے کے لیئے کمرے سے باہر نکل کر تھانے کے دوسرے حصے کی جانب چلے گئے۔ ایک برآمدے میں ہر کمرے کے باہر دو تین لوگ موجود تھے ۔ ایک کمرے کے اندردو سپاہی ایک شخص کو پولیس کی زبان میں ڈانٹتے اور دھکے دیتے ہوئے باہر لائے اور دھمکی دی کہ اب اندر داخل ہوئے تو اسے حوالات میں بند کر دیا جائیگا ۔ ہم نے اُس شخص سے اس سلوک کی وجہ پوچھی تو بتایاگیا کہ ایک تفتیش کے سلسلے میں صبح نو بجے بلایا گیا تھا ، دو گھنٹے سے زیادہ وقت گزر گیا ۔ مخالف پارٹی کے لوگ اندر بیٹھے ہیں کہ اُن کی سفارش ہے مجھے اور میرے ساتھی کوباہر سردی میں کھڑا کر رکھا ہے ۔ میں نے اندر جا کر یہ کہا ہماری بات بھی سن لیں یا کم از کم کمرے میں بٹھا لیں تا کہ سردی سے تو بچ سکیں۔ مخالف پارٹی کے لوگ کمرے میں کرسیوں پر براجمان ہیں۔ ہمیں ذلیل کرنے اور اذیت دینے کے لیئے یہ سلوک کیا جارہا ہے۔
پولیس گردی ایک خاص کلچر بن جانے سے عوام میں تشویش اور خوف کی انتہا ہو چکی ہے ۔ عوام کو مطمئن کرنے کے لیے حکم رانوں کی طرف سے نوٹس لینے کی خبریں تو ملتی ہیں لیکن قصور وار پولیس ملازمین کو سزا دینے اور کیفر کردار تک پہنچانے کی اطلاعات کم ہی دی جاتی ہیںپریس کانفرنسوں ،محکمانہ تقریبات اور سیمیناروں میں حکمرانوں کی طرف سے پولیس والوں کو عوام کے ساتھ خوش اخلاقی سے پیش آنے کی تلقین تو بہت ہوتی ہے اور وقفے وقفے سے ہدایات جاری ہوتی رہتی ہیں کہ شہریوں کی تذلیل نہ کی جائے اس پر عمل نہ کرنے والے پولیس اہل کاروں کے خلاف سخت کاروائی ہو گی لیکن یہ لوگوں کو مطمئن کرنے کے لیے ہی ہوتا ہے۔ حکم رانوں کے ساتھ ساتھ اب اعلیٰ پولیس حکام نے بھی اپنے ماتحت ملازمین کو تلقین کرنے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔
تازہ ترین مثال یہ بھی ہے کہ سی سی پی او لاہور بی اے ناصر جو اچھی ساکھ رکھتے ہیں ، نے اپنے دفتر میں کھلی کچہری لگائی اور شہریوں کی شکایات سنیں، موقع پر احکامات جاری کیئے ۔ اسی طرح ڈی آئی جی آپریشنز وقاص نذیر نے ایک میٹنگ میں ہدایت کی ہے کہ شہریوں کی عزت ِنفس کا خیال رکھا جائے انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ عوام کو پولیس کارروائی کے دوران بدتمیزی ، تشدد اور قانون کی خلاف ورزی کے حوالے سے شکایات ختم ہونی چاہئیں۔ اس موقع پر انہوں نے کہا کہ حکومت پنجاب کی ہدایت کے مطابق شام کو دو گھنٹے کے لئے لوگوں کی شکایات سننے کا سلسلہ شروع کیا گیا ہے ۔ ان کھلی کچہریوں کا بنیادی مقصد عوامی شکایات کا بروقت ازالہ کرنا ہے ۔ پولیس حکام کی طرف سے کچہریوں کا انتظام اچھی بات ہے ۔ اللہ کرے کہ عوامی شکایات سُن کر ان کا خاتمہ بھی ہوا کرے۔ ایک شکایت ہم بھی ان اعلیٰ پولیس حکام کے نوٹس میں لانا چاہتے ہیں ۔ لاہور میں دریائے راوی کے پل پر شدید رش اور ٹریفک جام کی وجہ سے پُل اب لاہور کا پُل صراط بن چکا ہے ۔ اس مقام پر پولیس ناکے لگے ہوتے ہیں۔ ہمارا یہ مشاہدہ اور تجربہ بھی ہے کہ لوگوں کو بلاوجہ تلاشی کے بہانے روک کر اُن کی تذلیل کی جاتی ہے ۔ جامہ تلاشی کے لئے گاڑیوں سے سب کو باہر نکلنے پر مجبور کیا جاتا ہے ۔ بلا وجہ دیر تک چیکنگ ہو تی ہے ۔ اگر کہا جائے کہ صاحب بہادر ، جلدی اپناکام ختم کریں۔ پہلے ہی تاخیر ہو رہی ہے تو اس پر پولیس اہلکار آگ بگولہ ہو کر بد زبانی پر اُتر آتے ہیں ۔ بار بار جیبوں کو ٹٹولنے پر ایک شخص نے کہہ دیا کہ جیب میں اسلحہ یا بارودی جیکٹ تو نہیں رکھی جاتی ، یہ سن کر اسے ایک طرف کھڑا ہونے کا حکم دیا گیا اور بدکلامی کرتے ہوئے کافی دیر تک روکے رکھا گیا کہ تمہاری ’’جراٗت ‘‘کی سزا تو دیں گے۔ سوا ل تو یہ بھی ہے کہ پولیس ناکوں پر کتنے دہشت گردوں کو پکڑا جا سکا ہے۔ ساہی وال کا واقعہ سب کے سامنے ہے؟؟؟
بنیادی بات یہی ہے کہ پولیس کلچر سے عوام تنگ ہیں، پولیس گردی کی انتہا ہو چکی ہے ۔ پولیس کا غلط رویہ ختم ہونا چاہیے۔ اعلیٰ پولیس حکام اپنے طریقے سے ماتحت ملازمین کو قانون کے صیحح معنوں میں محافظ بنانے کا کام کر دیںتو ایک معجزہ ہی ہو گا کہ موجودہ پولیس کلچر میں بہتری آجائے ۔دانائے راز نے ایک صدی قبل موتی بکھیرے تھے کہ ؎
اگر کج رو ہیں انجم آسمان تیرا ہے یا میرا
مجھے فکرِ جہاں کیوں ہو ، جہاں تیرا ہے یا میرا
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024