بزدار صاحب آپ کیسے وزیر اعلی ہیںپاکستان کے دو صوبے ہواکرتے تھے۔ ایک مشرقی پاکستان اور دوسرا مغربی پاکستان۔ یہی پڑھتے پڑھتے میڑک کا امتحان دیا۔ایف ۔اے کا امتحان بھی صوبوں کے اسی محل وقوع کے ساتھ دیا۔پھر مشرقی پاکستان ،بنگلہ دیش اور مغربی پاکستان، پاکستان بن گیا۔یہ سب کیسے ہوا اس کی تفصیل کا فی الوقت یہ موقع نہیں۔ملک امیر محمد خاں ،نواب آف کالا باغ مغربی پاکستان کے گورنر تھے۔بڑادبدبہ تھا ان کا ۔بڑی بڑی مونچھوں کو جب تائودیتے تو افسر شاہی ان کا اشارہ سمجھ جاتی۔دیانتدار بھی تھے۔اچھے اوصاف کاحامل ہونے کے باوجود سیاسی مخالفین کو برداشت کرنا ان کی فطرت میں نہیں تھا۔جب تک گورنر رہے لاہورکی بڑی سیاسی جلسہ گاہ موچی دروازہ اکثر ویران ہی رہی ۔سیاست کو انہوں نے صرف حکمران جماعت کنونشن مسلم لیگ تک ہی محدود رہنے دیا۔پھرایک دن صدر پاکستان جنرل ایوب خاں کی ناراضی کا نشانہ بنے اور استعفی دے کر واپس کالاباغ چلے گئے اور لاہور میں اپنے پیچھے ظلم وتعدی کی داستانیں بھی چھوڑ گئے ۔ایوب خاں رخصت ہوئے اور ذوالفقار علی بھٹو ملک کے چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر اور صدر بنے تو پنجاب کی حکمرانی ملک غلام مصطفے کھرکے حوالے ہوئی۔مصطفے کھر نے اپنے سیاسی مخالفین کے ساتھ ایسے ایسے گھنائونے اور شرمناک رویے اختیار کئے کہ نواب کالاباغ کو بھی پیچھے چھوڑ دیا۔
انہوں نے کالاباغ سے زیادہ ظلم کی داستانیں رقم کیں ۔غلام مصطفے کھر وزات اعلی سے فارغ کئے گئے تو حنیف رامے کے سرپر پنجاب کی حکمرانی کاتاج سجا۔اگر چہ وہ دانشور تھے مگر حکومت کی روائتی عادات اور سیاسی مخالفین کو برداشت نہ کرنے بلکہ ان کا ناطقہ بند کرنے میں انہوں نے بھی اپنا حصہ خوب خوب ڈالا۔لاہور میں افتخار"فتنہ"نام کا ایک پیپلز پارٹی کاطالب علم ہوا کرتا تھا جسے مخالفین کے جلسے الٹانے کا کام سونپا جاتا۔ بڑا ہیجان خیز دور تھا حنیف رامے کابھی۔اب جب مصطفے کھر ذوالفقار علی بھٹو کے مخالف بن گئے اور لاہور کے ایک حلقے سے ضمنی انتخاب میں حصہ لیاتوشادباغ کے ایک انتخابی حلقے میں ان کے جلسے میں سانپ چھوڑ کربھگڈر مچادی گئی یہ سب کچھ حنیف رامے کے دور میں ہوا۔اس کے بعد پنجاب کی حکومت صادق حسین قریشی کے حصے میں آئی مگر ظلم وسیاسی جبر5جولائی 1977ء تک قائم رہا۔اس کے بعد پھر جرنیلوںکی سیاہ رات کا آغاز ہوا تو جنرل ضیاء الحق نے مخالف سیاسی کارکنوں کیلئے کوڑے ،عقوبت خانے،قلعے اور جیلوں کے آہنی پھاٹک کھول دیئے جن کی خوراک صرف اور صرف سیاسی کارکن ،صحافی،وکلاء اور سیاستدان تھے۔۔ضیاء الحق نے پنجاب کی حکمرانی تحریک استقلال لاہور کے فنانس سیکرٹری نواز شریف کو عطاکردی۔کاروباری آدمی تھے ظلم وتشدد کی بجائے سیاسی کارکنوں، قلمکاروں کو خریدنے کی پالیسی اختیار کی اور اس کاروبار میں بڑی ترقی کی ۔پھر کرپشن اور بد عنوانی کو شعار کیا اور یہ کاروبار بھی خوب پھلا پھولا۔اپنے زیر سایہ اپنے چھوٹے بھائی کو بھی یہ ہنرسکھا کر اکھاڑے میں بھیجا توانہوں نے بھی بڑے بھائی کو مایوس نہیں کیا پھر ایک بار پانچ سال کے لئے چوہدری پرویز الہی پنجاب کے وزیر اعلی بنے ۔ان کا دور امن ،شرافت اور ترقی کے علاوہ کچھ نہ تھا۔ان کے کارناموں کا ذکر بھی کسی اور وقت پر اُٹھا رکھتے ہیں ۔بعد میںپنجاب کی افسر شاہی کو"کنٹرول"کرنے کیلئے اورانہیں کمزور کرکے اپنے تابع کرنے کی پالیسی پر عمل کرانے کیلئے شہباز شریف نے ایک "دل چسپ" حکمت عملی اختیار کی جس سے وہ پنجاب کے وزیر اعلی کے ایسے غلام بنے کہ باقی ماندہ افسر شاہی بھی "گھر "بچانے کی خاطر خوفزدہ ہوگئی ،اوپر سے انہیں کرپشن کی ہیروئن کا ایسا عادی بنادیا کہ ایک اشارے پر انہوں نے لاہور کے ماڈل ٹائون میں چودہ زندہ وتابندہ انسانوں کو ایک لمحے سے بھی کم عرصے میں خون میں نہلا دیا۔باقی تاریخ ہے ۔عثمان بزدار صاحب آپ کیسے وزیر اعلی پنجاب ہیں ۔نہ آپ کی بڑی بڑی مونچھیںنہ آپ سیاسی مخالفین کو کچلنے کیلئے کوئی ظلم کرتے ہیں ۔نواز شریف خاندان اور خواجہ برادران کی عدالتوں میں پیشیوں کے موقع پر ان کے کارکن آپ کواور وزیر اعظم کو کھلی دھمکیاں اور گالیاں دیتے ہیں اور آپ ان پر لاٹھی چارج کرواتے ہیں نہ آنسو گیس پھنکواتے ہیں۔ نہ ہی ان کے جلسوں میں بھگڈر پھیلانے کیلئے سانپ چھوڑتے ہیں۔نہ کوڑے مرواتے ہیں ۔شاہی قلعہ ویران پڑا ہے اور آپ کسی سیاسی مخالف کووہاں کی کال کوٹھڑی میں نہیں بھیجتے۔آپ کی پنجاب پولیس کے عقوبت خانے بھی اب اداس ہوگئے ہیں ۔حتی کہ بیوروکریسی کو اپنے تابع کرنے کیلئے آپ ان کے "گھروں"کو بھی نہیں توڑتے۔نہ ہی آپ نے کوئی گلو بٹ پال رکھا ہے تو پھر آپ کیسے وزیر اعلی ہیں۔آپ وزیر اعلی ہوں اور مخالفین دندناتے پھریں۔اس سے زیادہ آپ کی ناکامی اور کیا ہوگی۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024