حضرت سلطان باہوؒ
نعیم اظہر
حضرت سلطان باہوؒ وہ صوفی شاعر اور بزرگ ہیں، جنہیں ساری دنیا برصغیر پاک و ہند کے بڑے صوفیا ء کرام میںسے ایک مانتی ہے۔آپ 1630ء میں شورکوٹ ضلع جھنگ میںپیدا ہوئے اور2 110ھ بمطابق 1691ء جمادی الثانی میں آپ کا وصال ہوا۔ آپ کو کاہر جاناں میں دفن کیا گیا ۔ مناقب سلطانی کے مطابق حضرت سلطان باہوؒ کے آبائو اجداد حضرت امام حسنؑ اور حضرت امام حسین ؑ کی شہادت کے بعد ہجرت کر کے ہندوستان تشریف لے آئے ۔انہوں نے پنڈ دادن خان اور احمد آبادکے گردونواح کے دیہاتوں اور شہروں کے ہندو سرداروں کو شکست دی اور لوگوں میں اسلام کا پیغام پہنچایا۔ حضرت سلطان باہوؒ کے والد ضلع جھنگ کے باشند ے تھے۔ ان کا نام بایزید ؒاور آپ کی والدہ محترمہ کا نام بی بی راستی تھا، آ پ نے چار شادیاں کیں اور آپ کے آٹھ بیٹے تھے۔ سلطان باہو ؒ کو اپنی والدہ سے بہت زیادہ لگائو تھا اور اسی لیے انہوں نے اپنی کتاب " عین الفقر" میں اپنا نام باہو رکھنے پر والدہ کا شکریہ ادا کیا ہے۔
حضرت سلطان باہوؒ کے بچپن کے متعلق کئی کرامات مشہورہیں ،ان میں ایک کا ذکر دل چسپی سے خالی نہ ہو گا ، بچپن میں آپ کے چہرے کے گردنور کا ایک ہالہ سا تھا۔جوں جوں اس ہالے کے معجزات سامنے آ نا شروع ہوئے تو علاقے کے ہندو متاثر ہونے لگے۔ جن کی درخواست پر آپ گھر میں ہی رہنے لگے۔ آپ نے ابتدائی تعلیم گھر میں اپنی والد ہ محترمہ سے حاصل کی اور آپ کی اولاد ہو گئی تو آ پ نے اپنی والدہ کو اپنا مر شد بننے کی درخواست کی، مگر انہوں نے درخواست یہ کہتے ہوئے مسترد کر دی اسلام میں عورتوں کو پیر و مر شد بننے کی اجازت نہیں ۔ اس لئے حضرت سلطان باہوؒ نے اپنے خاندان کو چھوڑ کر دریائے راوی کے کنارے آباد ایک گائوں بغداد میں حضرت حبیب اﷲ قادریؒ کے خدمت میں حاضر ی دی۔ مرید بننے کے بعد آپ اپنی کرامتوں کی بدولت اپنے مرشد پر سبقت لے گئے۔ یہ دیکھتے ہوئے حضرت حبیب اﷲ قادریؒ نے کشادہ دلی سے کام لیتے ہوئے انہیں مزید تعلیم دینے سے انکار کر دیا اور حکم دیا کہ وہ ان کے استاد حضرت سید عبدالرحمان قادری ؒکے پاس دلی جائیں۔ سید عبدالرحمان قادریؒ شہنشاہ کے منصب دار اور روحانی علم کو اچھی طرح سمجھتے او ر جانتے تھے اس لئے حضرت سلطان باہوؒ دلی پہنچے اور مطلوبہ علوم حاصل کیے۔ شہنشاہ اورنگزیب بھی حضرت سلطان باہوؒ کو بڑی قدرو عزت کی نگاہ سے دیکھتا تھا، آپ کی وفات کے بعد 1767 ء میں جھنڈا سنگھ اور گنڈا سنگھ نے اس علاقے پر ہلہ بول دیا۔ لیکن سکھ سرداروں نے مزار کو نقصان نہ پہنچایا۔ کچھ عرصہ بعد دریائے چناب نے اپنا رخ تبدیل کیا تو مزار کو نقصان پہنچنے کا خدشہ ہوا، اچانک آواز آئی کہ ایک شخص دریا میں سے حضرت سلطان باہوؒ کا تابوت مبارک نکال لے گیا اور ایک مکان میں پیپل کے درخت کے نیچے دفن کرنے کا حکم دے کر غائب ہو گیا۔ یہ واقعہ سکھوں کے حملے کے بعد 1775 ء کا ہے ۔ "تواریخ سلطان باہو ؒ" کے مطابق آپ نے عربی، فارسی میں 150 کے قریب کتابیں لکھیں۔ ان کی پنجابی تصنیف کے بارے میں کچھ ذکر نہیں ملتا صرف اتنا لکھا ملتا ہے کہ انہوں نے پنجابی میں شعر کہے ۔ حضرت سلطان باہوؒ کی ایک طویل سہ حرفی چھپی حروف تہجی کے ہر حرف کے نیچے دو یا چار چھوٹی نظمیں (ابیات) ہیں۔ ان ابیات کی سب سے اچھی بات یہ ہے کہ ہر دو مصرعوں کے آخر میں "ہوُ" آتا ہے ۔ "ہوُ" اﷲ کا نام ہے اور اس کا ورد بہت برکت والا سمجھا جاتا ہے۔ حضرت سلطان باہوؒ کی تمام کی تمام شاعری بڑی سادہ اور خیالات سے پر ہے۔ اس میں کسی قسم کی بناوٹ نہیں ہے ، مزید یہ کہ حضرت سلطان باہوؒ شاعری کی زبان جھنگ اور اس کے گردونواح کے اضلاع میں بولی جانے والی پنجابی ہے۔ حضرت سلطان باہوؒ کو اہل بیتؓ سے بہت خاص لگائو تھا ، اس لیے آپ کا معمول تھا محرم الحرام کے پہلے عشرہ میں واقعہ کربلا اور شہادت امام حسین ؑ کا ذکر کرتے عقیدت مند بڑی تعداد میں حاضری دیتے ہیں ۔