تحفظ ختم نبوت مشائخ کانفرنس
جاوید اختر چودھری
آستانہ عالیہ عرفانیہ چشتیہ سندر شریف کے زیر اہتمام آل پاکستان’’ تحفظ ختم نبوت مشائخ کانفرنس‘‘ مسے خطاب کرتے ہوئے مقررین نے واضح کیا ہے کہ 43 سال کے بعد طے شدہ مسئلہ قادیانیت کو دوبارہ چھیڑا گیا۔ چونکہ یہ مسئلہ پاکستان کی اسمبلی میں طے ہوا تھا۔ا س لئے اندرونی و بیرونی قوتوں نے مل کر اسے اسمبلی کے ذریعے ہی تبدیل کرانے کی کوشش کی اور یہ کام موجودہ حکومتی سطح پر کیا گیا۔ اس سے پیشتر لبرل ازم اور بلاگرز کے ذریعے مسلمانوں کے جذبات سے کھیلا گیا۔قیام پاکستان کے بعد 1952ء میں قادیانیوں کے کوئٹہ کے اجلاس میں اعلان سے لیکر 1953ء میں ’’مجلس تحفظ ختم نبوت‘‘ کے قیام اور پھر 1954ء میں اس تحریک کا خاتمہ تاریخ کا حصہ ہے۔ جس کے بعد 1974ء میں پاکستان کے آئین کے تحت قادیانیوں کو غیر مسلم ڈیکلیر کیا گیا اور شعائر اسلامی کو استعمال کرنے سے منع کر دیا گیا جس کی تائید دنیا کے مسلم ممالک نے کی۔کانفرنس کے آغاز میں سید حبیب عرفانی نے پورے پاکستان سے تشریف لانے والے مشائخ اور دیگر معزز مہمانوں کو مشائخ ونگ پاکستان تحریک انصاف کی طرف سے خوش آمدیدکہا اور چیئرمین عمران خان کو پاکستان تحریک انصاف کا نقطہ نظر بیان کرنے کے لئے تشریف لانے پر ان کا خیر مقدم کیا۔دیگر شرکاء میں حضرت شاہ عبدالطیف بھٹائیؒ کے سجادہ نشین سائیں سید وقار شاہ لطیفی نے بھی اس کانفرنس میں بطور خاص شرکت کی۔
مقررین نے اس موقع پر کہا برصغیر اور سپین میں تقریباً 800 سال مسلمانوں کی حکومت رہی مگر سپین میں حکومت ختم ہوتے ہی مسجدوں کے دروازوں کو تالے لگ گئے اور اب وہاں اذان کی آواز سنائی نہیں دیتی۔ اور برصغیر میں بھی 800 سال ہی مسلمانوں کی حکومت رہی مگر یہاں مساجد سے آج تک اذانوں کی آوازیں آنے کی وجہ یہ ہے کہ یہاں اولیاء اللہ نے دین اسلام پھیلایا۔ لوگوں کی تربیت کی، جو آج بھی اولیاء اللہ کی درگاہوں، آستانوں سے ان کے سجادہ نشین مشائخ جو یہاں موجود ہیں یا نہیں ہیں، کے زیر انتظام تربیتی اداروں کے ذریعے جاری تھے اور جاری ہیں۔ تربیت گاہوں کی کمی اور کمزوریاں اُن مزارات پر ہیں جو حکومتی کنٹرول میں ہیں۔ مگر ان وجوہ کو حکومتی نااہلی تسلیم کرنے کی بجائے اسے مشائخ سے منسوب کیا جا رہا ہے۔اس موقع پر پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان نے مطالبہ کیا کہ قوم کو راجہ ظفر الحق کمیٹی کی رپورٹ سے آگاہ کیا جائے جس کا اسے شدت سے انتظار ہے۔پاکستان کے طول و عرض میں مزارات، امام بارگاہوں اور عوامی اجتماعات پر دھماکے تو حکومتی نااہلی کی وجہ سے ہوئے مگر اپنی بدانتظامی اور نااہلی کو چھپانے کے لئے حکومت نے مزارات کو تالے لگوا دئیے اور زائرین کے امن و سکون کو برباد کر دیا جو مزارات پر تلاوت قرآنِ کریم، درود و سلام کے لئے حاضر ہوتے ہیں۔
مقررین نے کہاختم نبوت کے ساتھ دیگر امور پر پاکستان تحریکِ انصاف کا نقطہ نظر جاننے کے لئے مشائخ کا یہ اجتماع خاص اہمیت کا حامل ہے۔مزارات کی آمدنیوں سے بلا مبالغہ کئی یونیورسٹیاں، ہسپتال اور رفاہ ِعامہ کے دیگر کئی کام ہو سکتے ہیں مگر محکمہ اوقاف کے اعداد و شمار کے مطابق آمدنی کا 88 فیصد انتظامی اخراجات کی مد میں صرف ہو جاتا ہے۔ اس پر پاکستان تحریک انصاف کا اقتدار میں آنے کے بعد لائحہ عمل کیا ہو گایہ معلوم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔1984ء میں داتا علی ہجویریؒ کے نام پر ہجویری یونیورسٹی کا پراجیکٹ شروع ہوا۔ بلڈنگ اپر مال پر مختص ہو گئی۔ مگر اس وقت کے گورنر نے یہ کہہ کر فائل بند کروادی کہ اس کی ضرورت نہیں ہے۔یہ بات بھی قابل غور ہے۔پنجاب یونیورسٹی میں تصوف کے آپشنل مضمون کو سلیبس میں ہونے کے باوجود 50 سال تک نہیں پڑھایا گیا۔ معلوم ہوتا ہے برطانوی دور حکومت کا نظام ابھی موجود ہے جس دور میں مخصو ص گرانٹ سے یہ تعلیمی ادارے بنائے گئے۔ پاکستان تحریک انصاف کو اقتدار میں آنے کے بعد اس مسئلہ پر بھی توجہ دینا ہو گی۔تاریخ بتاتی ہے کہ مسلمان کے دشمن تو مسلمانوں اور دین اسلام کے خلاف کام کرتے ہیں لیکن خود مسلمان کیسے دین اسلام کے خلاف کام کرتے یہ دو یہودی محققین کے دو جملوں میں تاثرات بیان کرتا ہوں جو مسلمانوں کی شدت پسندی پر تحقیق کر رہے تھے۔
1970ء کی دہائی میں پیرس میں قائم ہونے والے تحقیقی ’’انسٹی ٹیوٹ ڈی موند عرب‘‘ میںیہودی محقق دائود الخلیلی نے مسلمانوں کی شدت پسندی پر تحقیق کرنے کے بعد ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ’’مسلمانوں کے ہوتے ہوئے دنیا کے کسی شخص کو اسلام کے خلاف سازش کرنے کی ضرورت نہیں۔ یہ خود ہی اس کے لئے کافی ہیں اور یہ کہ اسلام نے جتنا نقصان مسلمانوں کے ہاتھوں اٹھایا اسلام کے مخالف مل کر بھی چودہ سو سال میں اتنا نہیں پہنچا سکے‘‘۔
اس کی مثال اور ثبوت موجودہ حکومت کی ختم نبوت کے حلف نامہ میں تبدیلی کرنے کی جسارت ہے۔
اسی طرح اردن کے ربی نامی ایک یہودی جو اسلام پر پی ایچ ڈی کر رہا تھا اور مسلمانوں کی شدت پسندی ہی موضوع تحقیق تھا، اس نے اپنی تحقیقی مقالہ کے آخر پر یہ نتیجہ/ فائنڈنگ دی کہ مسلمان اسلام سے زیادہ اپنے نبیؐ سے محبت کرتے ہیں کہ یہ اسلام پر، مسجد پر، حکومت پر، خاندان پرحملہ حتیٰ کہ مسجد پر قبضہ برداشت کر لیں گے مگر اپنے نبی پر اٹھنے والی انگلی برداشت نہیں کریں گے۔ اس کی مثال تحفظِ ختم نبوت کانفرنس میں ہم سب کا یہاں اکٹھے ہونا ہے اور دامے، درمے، سخنے ناموس رسالت کی حفاظت میں شامل ہونا ہے۔
پاکستان کی بڑی درگاہوں، درباروں اور مزارات کے ساتھ بڑی بڑی جائیدادیں ہیں۔ مگر حکومتی کنٹرول والے ان مزارات کی دیکھ بھال اور زائرین کے قیام و طعام، مستحقین کی فلاح و بہبود پر برئے نام خرچ ہوتا ہے۔ آخر ایسا کیوں ہے؟ کانفرنس میں دیوان عظمت سید محمد،دیوان آل ِ حبیب معینی ، پیر خواجہ فرید الدین فخری ، پیر سید اسرارالحق نظامی فخری ، پیر خواجہ قطب الدین فریدی ، پیر خواجہ معین الدین کوریجہ ، پیر سید صمصام علی بخاری ، پیر سید رشید احمد شاہ مشہدی ، پیر سید سلطان جہانیاں جہاں گشت ، پیر سید انوار الحسن ، پیر خواجہ نصر المحمود تونسوی ، پیر سائیں طفیل چشتی ، پیر محمدامین ساجد ، پیر سید مزین ہاشمی ، پیر غلام رسول اویسی ، سندھ سے پیر سید مہدی رضا شاہ ، پیر شاہد علی جیلانی ، پیر الحاج گلشن الہٰی ، پیر سید صبیح الدین زبیر گیسو دراز ، آزاد کشمیر سے پیر محمد شاہد حسین چشتی ، پیر سید عارف شاہ گیلانی ، خیبر پختونخواہ سے پیر سید محمد اشفاق احمد شاہ ، پیر محی الدین محبوب ، پیر سید عبدالماجد شاہ ، کوئٹہ سے پیر ابراہیم آغا مجددی ، پیر سید محمد اقبال شاہ سمیت ملک بھر سے (500 ) سے زائد مشائخ نے شرکت کی۔