فروری کشمیری عوام کے لیے بڑی اہمیت کا حامل ہے 5فروری یوم یکجہتی کشمیر اوراسی ماہ میں مقبول بٹ اور افضل گورو شہید کی عظیم قربانیاں روز روشن کی طرح عیاں ہیں5فروری کو مقبوضہ کشمیر ، آزاد کشمیر ، پاکستان سمیت دنیا بھر میں اظہار یکجہتی منایا گیا مقبول بٹ ، افضل گورو اور برہان بوانی شہید سمیت سب شہدا کو خراج عقیدت پیش کیا اور ان کے عظیم مشن کو جاری اور مکمل کرنے کا عہد کیا گیا اس سلسلے میں تمام سیاسی مذہبی جماعتوں اور حکومتی سطح پر بھی تجدید عہد کیا گیا۔ لیکن اس ماہ میں بھارت کی طرف سے لائن آف کنٹرول اور ورکنگ بانڈری پر فائرنگ کا بالترتیب سلسلہ جاری ہے ، بھارتی بربریت کی تازہ مثال بٹل سیکٹر میں سکول وین پر فائرنگ جس سے ڈرائیور شہید ، خواتین اور بچے زخمی ہوئے جنگی جنون میں مبتلا بھارتی افواج تتا پانی ، کھوئی رٹہ اور بٹل سیکٹر میں شہری آبادی کو نشانہ بنارہی ہے ۔ جب کہ شہری آبادی کو نشانہ بنانا جنیوا کنونشن جنگی بندی کے معاہدے کی خلاف ورزی ہے ۔بھارتی مسلح افواج کے جواب میں پاکستانی سیکورٹی کے اداروں نے کاروائی کی جس سے بھارتی چوکی تباہ پانچ فوجی ہلاک اور مزید زخمی ہوئے پاکستان نے بھارت کی طرف سے شہریوں کے خلاف کاروائی کرنے پر شدید احتجاج کیا مراسلے میں بھارت سے کہا گیا کہ بار بار زور دینے کے باوجود بھارت جنگی معاہدے کی خلاف ورزیاں جاری رکھے ہوئے ہے ۔ 2018کے اوائل میں ہی بھارتی افواج نے 333مرتبہ کنٹرول لائن اور و رکنگ بانڈری پر جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزیاں کی ہیں جس کے نتیجے میں 14 شہری شہید اور 64 سے زخمی ہوئے ۔ جنگی جنون میں مبتلا بھارت نے اگلے مورچوں پر ٹینک شکن مزائل پہنچا دیئے ہیں اور مقبول بٹ کی شہادت کے موقعہ پر پورا کشمیر فوجی چھائونی کا منظر پیش کر رہا ہے ۔آزاد کشمیر کے وزیر اعظم راجہ فاروق حیدر نے بھی لائن آف کنٹرول پر معصوم شہریوں اور سکول بچوں کی وین پر بلا اشتعال فائرنگ کی شدید مذمت کی اور کہا کہ بھارت عالمی قوانین کی خلاف ورزیاں کر رہاہے عالمی برادری سے اپیل ہے کہ وہ بھارت کے ظلم وستم اور خلاف ورزیوں کا نوٹس لے ۔ دوسری طرف امریکہ کا رویہ مسلمانوں اور بالخصوص پاکستان کے ساتھ نہ پہلے درست تھا اور نہ ہی اب ہے موجودہ صدر ٹرمپ نے صدارت پر براجمان ہوتے ہی بھارت کی محبت میں مسلمانوں اور بالخصوص پاکستان کو ٹارگٹ کرنے کا سلسلہ جاری وساری رکھا ہوا ہے ۔ جس سے پاکستان میں اس کے خلاف نفرت بڑھتی جارہی ہے ۔ امریکہ برطانیہ اور فرانس سمیت دیگر یورپی ممالک پر دبائو ڈال کر پاکستان کو گرے ممالک میں شامل کروانا چاہتا ہے اس کا مقصد پاکستان کی اقتصادی ترقی پر اثر انداز ہونا ہے ۔ پاکستان کو فنانشل ٹاسک فورس میں شامل کروانے کی کوشش کررہا ہے ۔ فنانشل ایکشن فورس نے امریکہ اور اس کے حواری ممالک کے دبائو میں آکر اقتصادی اور رینکنک کم کر دی تو ملک پہلے ہی مسائل کا شکار ہے معاشی لحاظ سے مزید مشکلات کا شکار ہو جائے گا پھر ممکن ہے پاکستان کو اپنی معیشت کو سہارا دینے کے لیے IMFاور دوسرے مالیاتی اداروں سے رابطہ کرے پاکستان پہلے ہی 84ارب ڈالر کا مقروض ہے ۔ پھر مہنگائی کے بڑے سیلاب کا خطرہ ہے ۔ 1989میں قائم کی گئی اس بین الاقوامی تنظیم کا مقصد منی لانڈرنگ کے تیزی سے پھیلنے کے خدشے کے مسئلہ کا حل تلاش کرنا اس عمل کا تدارک کرنا تھا۔ اقتصادی ماہرین اس کو امریکہ کی پاکستان کے خلاف گریٹ گیم قرار دے رہے ہیں کہتے ہیں کہ اس سے پاکستان کی معیشت پر تباہ کن اثرات مرتب ہونگے اور غیر ملکی سرمایہ کار ی کم ہوجائینگے اور پاکستان کی بین الاقوامی تجارت پر بھی منفی اثرات مرتب ہونگے امریکہ کیونکہ بھارت سے دوستی نبھا رہا ہے ۔ پاکستان پر دبائو ڈال کر اپنے ایجنڈے کی تکمیل چاہتا ہے جیسے اگست 2017میں امریکہ نے نئی افغان پالیسی پیش کرتے ہوئے کہا تھا ایسے ہی مخصوص ایجنڈے پر عمل پیرا ہے ۔ اس لیے پاکستان کو نشان زدہ ملک قرار دلوانا چاہتا ہے ۔ اب کوئی شک نہیں رہا کہ امریکہ اپنی امداد بھی اور دوسرے یورپی ممالک کو بھی پاکستان کے لیے بند کرنے پر مجبور کر سکتا ہے اس صورت حال میں پاکستان کے لیے دوست ممالک کو اعتماد میں لینا ضروری ہے تاکہ بین الاقوامی فورم پر پاکستان کا مقدمہ مئوثر طریقے سے پیش کر سکے ۔ حکومت اور وزارت خارجہ کی مئوثر سفارتکاری کے ذریعے کردار ادا کرنا ہو گا تاکہ پاکستان نازک صورت حال سے بچ سکے ۔ ازلی دشمن بھارت امریکہ اور اسرائیل کے ساتھ مل کر ہمیں عدم استحکام سے دوچار کرنا چاہتا ہے ۔ لیکن ہماری اندرونی صورت حال بھی اتنی تسلی بخش نہیں ہے حکومت خود عدم استحکام کا شکار ہے میاں نوازشریف کی نااہلی کے بعد عدالت کے ساتھ ان کی اور مسلم لیگ کی الفاظی جنگ جاری ہے جتنا عدلیہ دبائو ڈال رہی ہے اور ان کے خلاف فیصلے آرہے ہیں اتنا ہی سیاسی محاذ پر میاں نوازشریف کو کامیابی حاصل ہوئی ہے ۔ لاہور چکوال لودھراں الیکشن کی شاندار کامیابیاں مسلم لیگ کے حصہ میں آئی ہیں لودھراں میں 40ہزار کی سبقت سے جیتنے والے جہانگیر ترین کا بیٹا 25ہزار کی برتری سے شکست کھا گیا ۔ یعنی اتنے عرصہ میں 65000 ووٹ کم ہوا شائد عدلیہ کے فیصلہ کو عوام نے قبول نہیں کیا ۔
حالانکہ انتخابی مہم میں نوازشریف ، شہباز شریف ، حمزہ شہباز اور مریم نواز سمیت کسی نے حصہ نہیں لیا اس کے باوجود بھاری اکثریت سے کامیابی تحریک انصاف کے لیے مایوسی کا ماحول ہے یا پاکستان مسلم لیگ کو خوش فہمی میں مبتلا کر گئی ہے یہ سمجھ لیا گیا ہے کہ 2018کے الیکشن میں یہی رزلٹ ہو گا۔ بہرحال تسلیم کرنا پڑے گا کہ اس وقت لوگ میاں نوازشریف اور مسلم لیگ کے ساتھ ہیں دوسری طرف تحریک انصاف اور عمران خان کو بھی اپنے رویے انداز گفتگو تنظیم کی کمی ، مشاورت کا نہ ہونا اور غلط منصوبہ بندی پر غور کرنا ہو گا اور رہنمائوں کو ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کا انداز ناکامی کی نشاندہی کر رہا ہے ۔ مسلم لیگ بھی خامیوںسے بھری پڑی ہے تنظیم نام کی کوئی چیز نہیں ہے مرکزی قیادت ، وزرا اور ممبران اسمبلی بھی ٹیلیفون سننا گوارہ نہیں کرتے لیکن پارٹی رہنمائوں کا عوام اور کارکنوں سے رابطے کا فقدان ہے ۔ معیار پر پورا نہ اترنا نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے عدلیہ کو بھی دیکھنا پڑے گا ایک جماعت کے احتساب سے اچھا تاثر نہیں مل رہا ، آصف زرداری سمیت پیپلز پارٹی اور ریٹائر جرنیل بیوروکریٹس کی کثیر تعداد نے جی بھر کر اس ملک کو لوٹا ہے ان سب کو بھی پوچھا جائے اور احتساب کے عمل سے گزار جائے ۔
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024