سعودی عرب سے شراکت داری اہمیت کی حامل، ایران سے تعلقات کے خواہاں ہیں، خرم دستگیر
اسلام آباد(سٹاف رپورٹر)وزیر دفاع خرم دستگیر خان نے کہا ہے کہ پاکستان نے سعودی عرب اور ایران کے ساتھ تعلقات کے بارے میں متوازن پالیسی اختیار کر رکھی ہے۔پاکستان کی مسلح افواج کئی عشروں سے سعودی عرب بھیجی جا رہی ہیں جہاں وہ دیرینہ معاہدوں اور پروٹوکولز کے تحت سعودی عرب مسلح افواج کی تربیت کے ساتھ ساتھ مشاورتی کردار بھی ادا کر رہی ہیں۔ انہوں نے جمعرات کے روز مقامی تھنک ٹینک کے زیر اہتمام ’’ پاکستان، سعودی عرب ،ایران تعلقات اور چیلنجـ‘‘ کے موضوع پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سکیورٹی نکتہ نظر سے بھی پاکستان کی مشرق وسطیٰ کے بارے میں پالیسی سے سعودی عرب کے ساتھ قریبی دیرینہ تعلقات سے مضبوط ہوئے یہ پاکستان کی حالیہ سالوں میں مشرق وسطیٰ بارے پالیسی سعودی عرب اور ایران کے حوالہ سے متوازن رہی ہے ۔ پاکستان سعودی عرب اور ایران کے ساتھ فوجی اور اقتصادی گہرے تعلقات کے علاوہ نظریاتی وابستگی بھی رکھتا ہے جبکہ ایران کے ساتھ انسداد دہشت گردی کے روابط اور اقتصادی تعاون بھی کر رہا ہے ۔ سعودی عرب کی قیادت میں اسلامی فوجی اتحاد ارتقاء کے بعد انسداد دہشت گردی کے لئے الائنس میں پاکستان نے سعودی عرب کو پیش کش کی ہے کہ پاکستان انسداد دہشت گردی کے لئے تربیت اور کمیونیکشن میں تعاون کے لئے تیار ہے ۔ دونوں ممالک کی اعلیٰ سطحی قیادت نے پاکستان اور سعودی عرب نے نئے شعبوں میں تاریخی شراکت داری کا عمل شروع کیا ہے اور خاص طور پر اقتصادی اورصنعتی تعاون کو وسعت دی گئی ہے ۔ہماری حکومت نے یمن تنازعہ میں براہ راست ملوث ہونے سے گریز کیا۔چیف آف آرمی سٹاف نے 2017ء کے آخر میں ایران کا دورہ کیا ۔حالیہ ایک اور چیلنج قطر اور خلیجی تعاون کونسل کے ممالک خصوصاً سعودی عرب کے مابین تعلقات کا بھی ہے ایران کے مقابلہ میں پاکستان کے قطر کے ساتھ سفارتی اور تجارتی تعلقات ہیں جن میں 15سال تک قطر سے گیس کی درآمد اور کئی شعبہ جات میں دفاعی معاہدے اور سودے بڑے اہم ہیں۔پاکستان اپنی ہمسائیگی میں استحکام کے لئے کوشاں ہے اور خاص طور پر پاک چین اقتصادی راہداری کی کامیابی کے لئے کوششیں کر رہا ہے ۔ پاکستان سعودی عرب کے ساتھ شراکت داری کو بڑی اہمیت دیتا ہے اور ایران کے ساتھ تعلقات کا بھی خواہاں ہے ۔ ہم نے ہمیشہ ان دونوں ممالک کے مابین کشیدگی میں کمی کے لئے مصالحانہ کردار ادا کیا ہے اور آئندہ بھی کرتے رہیں گے ۔ اس میں مذہبی اور نسلی بڑھتے ہوئے تنازعات کے تمام ممالک پر منفی اور نقصان دہ اثرات پڑ سکتے ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ پاکستان ایران سے بھی توقع کرتا ہے کہ وہ سعودی عرب اور خلیج کی ریاستوں کے ساتھ تاریخی شراکت داری پر پاکستان کے موقف کو اچھی طرح سمجھے ۔ خلیج تعاون کونسل کے ممالک میں استحکام میں ہمارے مفادات کا ماخذیہ ہے کہ سعودی عرب میں 19لاکھ پاکستانی قیام پذیر ہیں جو کہ غیر ملکی زرمبادلہ کے ہمارے ذخائر میں کردار ادا کر رہے ہیں ۔ پاکستان نے چین بیلٹ اینڈ روڈ تصور کے تحت سی پیک منصوبہ کے ذریعے گیٹ وے پر تشکیل بارے پیش رفت کی ہے ۔پاکستان مشترکہ اقتصادی منصوبوں کے لئے کئی ذرائع کی پیش کش کرتا ہے ۔ پاکستان کی گوادر بندرگاہ تزویراتی لحاظ سے بڑی اہم ہے اور ایران کی بندرگا چاہ بہارسسٹر پورٹ کے طور پر کام کر سکتی ہے جس کے علاقہ کی ترقی کے لئے بڑے اقتصادی فوائد ہیں ۔پاکستان دہشت گردی کے تاریک دور سے باہر نکل آیا ہے اور عوام کو توانائی کی قلت سے نجات ملی ہے جبکہ یہ مسائل پاکستان مسلم لیگ کی حکومت کو 2013ء میں ورثہ میں ملے تھے ۔منتخب حکومت کے تحت پاکستان نے تمام بڑے بڑے مسائل حل کر لئے ہیں آج پاکستان ایک غیر مستحکم خطہ میںبھی مستحکم ملک بن چکا ہے ۔ اس سے ہمیں یہ اعتماد ہونا چاہیئے کہ پاکستان پرامن ، خوشحال اور وہ قوم ہے جوکہ خطہ بھر اور عمومی طور پر دنیا بھر میں اپنا جائز کردار بہتر طو رپر ادا کرنے کی طرف گامزن ہے۔