’’صنعتی یونٹس پر کاربن ٹیکس عائد کرنے کی کوئی تجویز زیر غور نہیں‘‘
اسلام آباد(سٹاف رپورٹر) جمعرات کے روز سینیٹ کو بتایا گیا کہ پی آئی اے کے ملازمین کی پنشن پر وفاقی ملازمین کے قواعدلاگو کرنے کی کوئی تجویز زیر غور نہیں اور نہ ایسا ہو سکتا ہے۔ رواں مالی سال کے دوران اسلام آباد میں کینسر ہسپتال کے لئے دو سو ملین روپے کی رقم مختص کی گئی ہے۔ کسی صنعتی شعبے پر کوئی کاربن ٹیکس عائد نہیں کیا گیا نہ ہی اس حوالے سے کوئی تجویز زیر غور ہے۔ ایوان کے وقفہ سوالا ت کے دوران بتایا گیا کہ ڈاکٹر جہانزیب جمالدینی کے سوال کے جواب میں بتایا گیا ہے کہ تھری جی، فور جی، این جی ایم ایس کے لائسنس پہلے سے موجود کمپنیوں کو 2014ئ، 2016ء اور 2017ء میں جاری کئے گئے۔ فی الحال نئی کمپنیوں کو لائسنس جاری کرنے کا کوئی منصوبہ نہیں ہے۔ان ہی کے ایک اور سوال کے جواب میں ایوان کو آگاہ کیا گیا کہ گزشتہ تین برسوں میں آنے والے زلزلے میں خیبر پختونخوا میں 225، پنجاب میں 5، آزاد جموں و کشمیر میں 2، گلگت بلتستان میں 10 اور فاٹا میں 30 افراد جاں بحق ہوئے۔ اکتوبر 2015ء کے زلزلہ میں 81 ہزار 695 گھر جزوی اور 29 ہزار 373 مکمل طور پر تباہ ہوئے۔ گزشتہ پانچ سالوں کے دوران زلزلہ متاثرین کو معاوضہ کی ادائیگی کے لئے وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے 16409.40 ملین روپے علاقائی اتھارٹیز کو ادا کئے۔ وزیر برائے موسمیاتی تبدیلی سینیٹر مشاہد اﷲ خان نے بتایا کہ کاربن کی قیمتوں پر اطلاق کی جانچ کے لئے اقوام متحدہ فریم ورک کنونشن آن کلائمٹ چینج کی معاونت کے ساتھ وزارت موسمیاتی تبدیلی ایک مطالعہ کا اجراء کرے گی اور یہ جائزہ لیا جائے گا کہ آیا کاربن پر ایسا ٹیکس موزوں ہے یا نہیں۔ انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں جنگلات کی بحالی اور سرسبز پاکستان منصوبے کے تحت 3.652 ارب روپے کی متوقع لاگت سے پانچ سال میں 100 ملین درخت لگانے کی منظوری دی گئی ہے۔ پورے ملک میں شجرکاری کی سرگرمیاں جاری ہیں۔ سڑکوں اور نہروں کے کنارے درخت لگانا، پرانے درختوں کی بحالی، صنوبر اور چلغوزہ کے جنگلات میں اضافہ سمیت مختلف اقدامات کئے جا رہے ہیں۔ 2017-18ء کے دوران اس ضمن میں 605.172 ملین روپے کی رقم مختص کی گئی ہے جس میں سے 242.068 ملین روپے جاری کر دیئے گئے ہیں اور 240.424 ملین روپے خرچ کئے جا چکے ہیں۔ وزیر مملکت برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی انوشہ رحمان نے کہا ہے کہ بلوچستان میں 20 ارب روپے سے زائد کی براڈ بینڈ سروسز کی فراہمی کے لئے کام ہو رہا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں چار کمپنیوں کو تھری جی اور فور جی کے لائسنس جاری کئے گئے ہیں۔ یہ لائسنس نہایت شفاف طریقے سے جاری کئے گئے ہیں۔