ملک کا سیاسی ڈھانچہ خطرے میں پڑ گیا‘ صدارتی نظام کی کوشش کی جا رہی ہے: ارکان سینٹ
اسلام آباد(سٹاف رپورٹر) حالیہ عدالتی فیصلوں کے پس منظر میں سینیٹروںنے پارلیمنٹ کی بالادستی کے بارے میں جمعرات کے روز سینیٹ کے اندر جذباتی اور تند و تیز تقاریر کیں اور خدشات ظاہر کئے گئے کہ ملک کے سیاسی ڈھانچہ کو خطرات لاحق ہو گئے ہیں۔ سینیٹروں نے کہا کہ پارلیمنٹ ایسی ماں ہے جس نے آئین کو جنم دیا ہے۔ پارلیمنٹ نے ہی ایک ادارے کو آئین کی تشریح کا اختیار دیا ہے جسے واپس بھی لیا جا سکتا ہے۔ چئیرمین سینیٹ میاں رضا ربانی نے ان خدشات کے پیش نظر کارروائی کے دوران کم از کم تین مواقع پر اپنے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ پارلیمنٹ خاموش نہیں ہے۔ وفاق کو بچائے گی ۔ پارلیمنت نے ہمیشہ آواز اٹھائی ہے جس کے نتیجہ میں کچھ مسائل حل ہوئے کچھ نہیں ہو سکے۔ پارلیمنٹ اپنا کردار ادا کرتی رہے گی۔ اور جمہوریت کو آگے لے کر چلے گی۔ایک اور موقع پر ریمارکس دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ میں تو ان حالات کی طویل عرصہ سے نشاندہی کرتا چلا آ رہا ہوں ۔ ان حالات کے مضمرات کا ہمیں اجتماعی طور پر سامنا کرنا پڑے گا۔ جب کہ سینیٹر بیرسٹر سیف اور سینیٹر اعظم موسیٰ خیل کے تحفظات پر ریمارکس دیتے ہوئے انہوںنے کہا کہ سیاسی درجہ حرارت کو کنٹرول کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے لئے ادارہ جاتی ڈائیلاگ ہونا چاہئے۔پیپلز پارٹی کے سینیٹر فرحت اللہ بابر نے ملک کی مزکورہ صورتحال کا معاملہ نکتہ اعتراض کے ذریعہ اٹھایا اور کہا کہ سپریم کورٹ اور الیکشن کمیشن کے فیصلے کے بعد پی ایم ایل کے سینیٹرز متاثر ہوئے ہیں۔ اس پر چیئرمین سینیٹ نے رائے دی کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کا اثر سینیٹ کے امیدواروں پر نہیں پڑے گا، امیدوار الیکشن لڑ سکتے ہیں۔ اس مموقع پر قائد ایوان سینیٹر راجہ ظفر الحق نے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ پارلیمانی بورڈ نے جو ٹکٹ جاری کئے تھے وہ ایک طرف رکھ کر نئی لسٹ بنائی گئی اور انہوں نے نے بطور چیئرمین اس پر دستخط کئے۔ اس کے بعد وہ خود چار پانچ افراد کے ہمراہ چیف الیکشن کمشنر کے پاس گیا۔ انہوں نے کہا کہ وہ مشاورت سے فیصلہ کریں گے، اب پتہ چلا ہے کہ یہ ٹکٹ بھی مسترد ہو گئے ہیں۔ چیئرمین سینیٹ نے کہا کہ میری رائے میں امیدواروں پر اس کا اثر نہیں پڑتا۔ تاہم فرحت اﷲ بابر نے کہا کہ سینیٹ انتخابات معطل ہوئے تو لمبے عرصے کے لئے پارلیمنٹ کی بالادستی اور ملک کا سیاسی ڈھانچہ خطرہ میں پڑ جائے گا۔ فرحت اللہ بابر نے کہا کہ یہ حالات پیدا کرنے میں نواز شریف کی غلطیاں بھی شامل ہیں ۔ پختوںخواہ ملی عوامی پارٹی کے سینیٹر عثمان کاکڑ نے کہا کہ خوازہ خیلہ سوات میں پر امن احتجاج کرنے والوں پر دہشت گردی کے مقدمات قائم کئے گئے ہیں۔ صدارت نظام کیلئے ٹیکنو کریٹ حکومت لانے، عام انتخابات اور سینیٹ کے انتخابات کو سبوتاژ کرنی کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ بلوچستان میں ایک انٹیلی جنس ادارے کے بریگیڈئر نے منتخب حکومت گرائی اور کنٹونمنٹ میں بیٹھ کر سینیٹ کی ایک سیٹ کیلئے چالیس سے پچاس کروڑ کی بولیاں لگ رہی ہیں۔ارکان صوبائی اسمبلی پر مقدمات بن رہے ہیں۔ بولیاں کوئی اور لگا رہا ہے اور سیاسی جماعتیں و سیاست دان بدنام ہو رہے ہیں۔ سیاسی جماعتوں کے متحد ہونے کی ضرورت ہے۔ یہ وقت نواز شریف پر نہیں بلکہ سب پر آ سکتا ہے۔ راتوں رات فیصلے آنے،پارلیمنٹ، جمہوریت اور دستور کیلئے نیک شگون نہیں ہیں۔ پارٹی سربراہ ہٹانے کا فیصلہ کسی ادارے کے بجائے انہیں کو کرنا چا ہئے جنہوں نے پارٹی سربراہ بنایا ہے۔بلوچستان سے سردار اعظم موسیٰ خیل نے کہا کہ سینہ زوری سے ملک نہیں چلایا جاسکتا۔ ریاست کے حالات ٹھیک نہیں۔ انصاف والے انصاف نہیں دے رہے ہیں۔ نواز شریف کے ساتھ ٹھیک نہیں ہو رہا۔ ملک میں انارکی پھیل جائے گی۔ کسی معاملہ کو اس حد تک ذاتی نہیں بنانا چاہیے۔یہ زیادتی ہے۔ اس ناانصافی میں سیاسی جماعتوں کا بھی حصہ ہے۔ سیاسی جماعتوں اور عدالت کے کندھوں پر بندوق رکھ کر پارلیمنٹ پر فائر کیا جا رہا ہے۔ حکمراں جماعت کے غوث نیازی نے چئیرمین سینیٹ سے کہا کہ وہ اس صورتحال میں آگے بڑھ کر کردار ادا کریں اور ڈائیلاگ کرائیں۔ انہوں نے کہا کہ نواز شریف کے بارے میں فیصلہ پر انہیں افسوس ہوا ہے۔پارلیمنٹ نے آئیں کو جنم دیا،پارلیمنٹ ہی آئیں کی ماں ہے اور پارلیمنٹ نے ہی ایک ادارے کو آئین کی تشریح کا اختیار دیا لیکن یہ لاڈ پیار زیادہ برادشت نہیں کیا جا سکتا اور یہ اختیار واپس بھی لیا جا سکتا ہے۔ ہم سپریم کورٹ سمیت تمام اداروں کا احترام کرتے ہیں۔ایم کیو ایم پاکستان کے سینیٹر بیرسٹر سیف نے چیف جسٹس ثاقب نثار کی اسلام آباد میں تقریر پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ان کے خطاب سے سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی تقاریر بھی یاد آئیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ وکلاء ان کے سپاہی ہیں، لیکن وکلاء چیف جسٹس کے نہیں عدلیہ کے سپاہی ہیں، چیف جسٹس کا موڈ لیگو پولیٹیکل لگ رہا تھا جبکہ ان کی کارروائیوں سے ذاتی دشمنی کا رویہ نظر آرہا ہے۔