ناانصافی کے خاتمے کا آغاز کردیا مصلحت خوف مفاد زہر قاتلججز ٹھوک بجا کر فیصلے کریں چیف جسٹس
اسلام آباد (آئی این پی+ صباح نیوز) چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا ہے کہ ملک کی بقا قانون کی حکمرانی میں ہے،ہم نے کسی سے محاذ آرائی نہیں کرنی، انصاف کریں ٹھوک کر اور پھر نتائج سے قطع نظر ہو کر فیصلہ کریں‘ معاشرے سے ناانصافی کے خاتمے کا آغاز کردیا ہے۔ جمعرات کو چیف جسٹس نے اسلام آباد ہائیکورٹ بار کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا اسلام آباد ہائیکورٹ بار نے ہمیشہ میرا ساتھ دیا ہے۔ قانون کی عمل داری اور مضبوط جوڈیشل سسٹم ضروری ہے، اس ملک کی بقا قانون کی حکمرانی میں ہے۔ عدلیہ کی کارکردگی ایک سال پہلے کے مقابلے میں بہت بہتر ہے، جج کا کام ڈلیور کرنا ہے اس پوزیشن میں ہوں کہ بہت سی باتیں نہیں کی جاسکتیں۔ ملک میں قانون سب کے لئے برابر ہونا چاہئے کسی سے محاذ آرائی نہیں کرنی ہے۔ معاشرے سے ناانصافی کے خاتمے کا آغاز کر دیا ہے۔ لوگوں کو جلد اور سستا انصاف فراہم کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ محنت اور دیانت ہی ترقی کا زینہ ہے ان لوگوں کی جنگ لڑنی ہے جن کے پاس حقوق لینے کی استطاعت نہیں ہے۔ ہم نے کسی کے ساتھ محاذ آرائی نہیں کرنی۔ وکلاء میری جدوجہد میں میرے سپاہی ہیں اس کا یہ مطلب نہیں ہم کسی کے ساتھ جنگ لڑرہے ہیں۔ بدقسمتی سے ہم تو اپنی سمت سے ہٹ گئے ہیں میں سوسائٹی کی لعنت کے خلاف جنگ لڑرہا ہوں۔ چاہتا ہوں کہ وکلاء اپنے شعبے کی معراج تک پہنچیں۔ کوشش ہے کہ جون تک تمام ریفرنسز مکمل کرلیں۔ جج کی جھاڑ کو اپنے دل سے نہ لگائیں وہ آپ کی اصلاح کیلئے ہوتی ہے۔ انصاف کریں ٹھوک کر اور پھر نتائج سے قطع نظر ہو کر فیصلہ کریں۔ ایک قاضی کے لئے خوف‘ مصلحت او مفاد زہر قاتل ہے۔ میں منافق نہیں ہوں جو سمجھ آتا ہے اخلاقی اور قانونی لحاظ سے وہی کرتا ہوں۔ صاف پانی اور سستا انصاف جیسے مسائل یہ سب میری کاوش اور جدوجہد ہے، بدقسمتی سے ہم اپنے مقصد سے ہٹ گئے لیکن اب بھی وقت ہے انسانی حقوق سے تعلق رکھنے والے مسائل حل کرنے میں وکلاء میرا ساتھ دیں، یہ سب میرے فرائض میں شامل ہے کسی پر احسان نہیں کر رہا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کچھ چیزوں سے سو فیصد اتفاق ہے، ملک میں قانون کی حکمرانی ہو کیونکہ ملک کی بقا قانون کی حکمرانی سے منسلک ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ہمارے معاشرے میں بدقسمتی سے بے انصافی کی رمق رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ جب میں صبح دفتر آ رہا تھا تو ایک وکیل کا میسج آیا جس میں لکھا ہے کہ مجھے پینے کا صاف پانی چاہیے مجھے صاف ہوا اور صاف ماحول چاہیے۔ مجھے خالص دودھ چاہیے۔ مجھے مردہ جانوروں کا گوشت نہیں کھانا۔ مجھے کینسر، ہیپاٹائٹس جیسی بیماریوں سے تحفظ چاہیے۔ میری فصلوں کی جائز قیمت فوری ملنی چاہیے، مجھے ہسپتالوں میں مفت علاج چاہیے اور مجھے سستا اور معیاری انصاف چاہیے اور یہی میری جدوجہد ہے یہ میرا مقصد ہے۔ مجھے وکلاء کی ضرورت ان کاموں کے لیے ہے کسی کے جا کہ گلے پڑنے کے لیے نہیں۔ میرا خواب تھا کہ جب اللہ تعالیٰ مجھے اس نعمت سے نوازے گا تو میں کچھ کر پاؤں گا لیکن بدقسمتی سے یہاں میرے بزرگ اور بڑے بھائی کھوسہ صاحب بیٹھے ہیں یہ میری حمایت کریں گے کہ ہم کسی اور ہی کام میں ملوث ہو گئے جو میری کوشش، کاوش اور مقصد تھا اس سے ہم ہٹ گئے لیکن ابھی بھی ہمارے پاس وقت ہے۔ سماجی مسائل کو حل کرنے کے لیے وکلاء میری قوت ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ میں معاشرے کی برائیوں کے خلاف جنگ لڑ رہا ہوں ۔ میں کسی شخص کے خلاف نہیں لڑ رہا۔ میں نے قانون کے مطابق انصاف کرنے کا حلف لیا ہے۔ آرٹیکل چار کے مطابق ہر شہری کا حق ہے کہ اس کے ساتھ قانون کے مطابق سلوک کیا جائے۔ یہ میری ذمہ داری اور ڈیوٹی میں شامل ہے میں کسی پر احسان نہیں کر رہا۔ ان کا کہنا تھا کہ اسلام آباد بار ایسوسی ایشن کے وکلاء کا چیمبرز کی فراہمی کا مطالبہ درست ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز کی تعداد بڑھ گئی ہے اور اس میں اسلام آباد ہائی کورٹ بار کو اس کا حصہ ملے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہائی کورٹ کا جج بننے کے لیے دس سال کا تجربہ چاہیے مگر سپریم کورٹ کا وکیل بننے کے لیے بارہ سال کا تجربہ چاہیے۔ اب یہ فیصلہ ہوا ہے کہ سپریم کورٹ کا وکیل بننے کے لیے سات سال کا تجربہ چاہیے اور بعد میں اسے پانچ سال کر دیا جائے گا ۔انہوں نے کہا کہ اس مدت میں کمی کی وجہ سے وہ ماہر وکلا جو اس شرط کی وجہ سے سپریم کورٹ نہیں آسکتے، وہ اب سپریم کورٹ میں بھی وکالت کے فرائض انجام دے سکیں گے۔ خطاب کے اختتام پر چیف جسٹس نے جج اور وکلا کو پیغام دیتے ہوئے کہا کہ آپ کو سخت محنت کے ساتھ اپنے فرائض کی انجام دہی کرنی ہے اور معاشرے کی لعنت کو ختم کرنے کے لیے جو بیڑا ہم نے اٹھایا اس میں آپ کی مدد درکار ہے۔
چیف جسٹس