علاج معالجے کی سہولت سے محروم سندھ کے باشندے
`
کیٹی سے کشمور اور کینجھر سے کارونجھر تک پھیلے سندھ میں صحت و صفائی‘ آمدورفت ‘ علاج معالجے اور بدامنی و بے روزگاری سمیت سینکڑوں مسائل ہیں جن کا شکار عوام انصاف کے منتظر ہیں لیکن سہولتوں کا فقدان ہے اور وہ احتجاج کیلئے عدالتوں یا پھر میڈیا کی سمت دیکھتے ہیں صوبے کے طول و عرض میں موجود پریس کلبوں پر ان کے مظاہرے‘ ریلیاں اور دھرنے اور ان میں گونجتے نعرے پتہ دیتے ہیں کہ حکمرانوں کی بے حسی مثالی ہے منتخب نمائندے ہو یا سرکاری کارندے سب ایک ہی مٹی کے بنے ہیں کسی کے کان پر جوں نہیں رینگتی ہفتہ رواں میں سندھ کے دیہات سے چند خبریں موصول ہوئیں جن میں سرکاری اسپتالوں میں سہولتیں نہ ہونے کے باعث بڑے شہروں میں سرکاری خرچ پر علاج کا مطالبہ کیا گیا تھا یہ مطالبہ کچھ ایسا غلط بھی نہیں جب حاضر سروس سرکاری افسران‘ منتخب نمائندوں اور ریٹائرڈ بیورو کریسی کو بہت سی مراعات میسر ہوں تو عام آدمی کا بھی ریاستی وسائل پر اتنا ہی حق ہے جتنا مراعات یافتہ طبقے کا۔ گڑھی خیروکا علی حسن بروہی‘ مٹھی کا نور خاصخیلی اور کوٹری کی مہرالنساء تخت طائوس کے طلب گار نہیںوہ تو حکومت سے اپنے بچوںکے سرکاری خرچ پر علاج کے خواستگار ہیں یہ معصومانہ خواہش پوری بھی ہوسکے گی یا نہیں؟ زیر نظر سطور تحریر کرتے وقت ایک ہی آرزو ہے کہ کاش مراد علی شاہ‘ سکندر رمیند ھرو‘ افضل پیجوہو ان عام آدمیوں کی داد رسی کردیں۔ کوٹری کی مسماۃ مہرالنساء اپنے شوہر ذوالفقار جوکھیو کی جگر کی بیماری کا سرکاری خرچ پر علاج کرائے جانے کے لیئے حیدرآباد پہنچی انہوں نے کہا کہ ان کا شوہر 8 برسوں سے بستر علالت پر ہے۔ گھر کا خر چہ بھی چلانا محال ہے مہنگا علاج ان کے بس میں نہیں اسی طرح گڑھی خیرو کے گوٹھ ابراہیم قمبرانی میں ایک ہی خاندان کے 4 بچے معذوری کی زندگی گذارنے پر مجبور ہیں ۔علی حسن بروہی کی 3بیٹیاں اور ایک بیٹا چلنے پھرنے سے لاچار ہیں اسکا ایک بیٹا اور ایک بیٹی پہلے ہی اسی بیماری میں انتقال کر چکے ہیں ۔33 سالہ کھیمتی ، 22سالہ ز لیخا ، 35 سالہ زرینہ اور 18 سالا محمد یوسف ایسی بیماری میں مبتلا ہیں جس میں وقت کے ساتھ ان کا وزن تو بڑھتا ہے مگر ان کا قد نہیں بڑھ رہا جس سے انہیں سانس کی تکلیف لاحق ہے ۔ معذور افراد کے بھائی ذوالفقار نے میڈیا کو بتایا کہ پیدائش کے کچھ عرصہ کے بعد ان کا قد بڑھنا بند ہوگیا تھا۔ ڈاکٹر کہتے ہیں ان کے اندرونی اعضاء بڑھ رہے ہیں مگر قد نہیں بڑھ رہا جس سے انہیں سانس لینے میں سخت تکلیف ہوتی ہے ۔اس نے کہا کہ وہ گھر کا اکیلا کمانے والا ہے اس لئے گھر کے خرچے ہی پورے نہیں ہو تے دوسرے بہن بھائیوں کے علاج پر بھی بہت خرچہ ہوتا ہے ۔ اس نے حکومت اور مخیر حضرات سے مدد کی اپیل کی ہے ۔ اسلام کوٹ کے گاؤں کھاکھنیار رحیم علی کا باشندہ ناز نور احمد خاصخیلی ریڈیو پاکستان مٹھی میں آرٹسٹ ہے جس کا دس سالہ بیٹا اخلاق احمد تھیلیسمیا جیسے اذیت ناک مرض میں مبتلا ہے والد کا کہنا ہے کہ اس سے قبل بڑے بیٹے وقار احمد کو بھی تھیلیسمیا کی بیماری تھی جس کا تیرہ سال علاج کرایا لیکن وہ زندگی کی بازی ہار گیا اب دوسرا بیٹا بھی تھیلیسمیا میں مبتلا ہے جس کا دس برسوں سے علاج کرا رہا ہوں، اخلاق کا والد غربت کی زندگی گذارنے پر مجبور ہے، وہ 2008 سے ریڈیو پاکستان مٹھی میں ملازم ہے جس کی ماہانہ آمدن صرف چار ہزار ہے جس سے گھر کا چولہا ہی بڑی مشکل سے جلتا ہے اخلاق کے والد نے اشک بار حالت میں کہا کہ مہینے میں کئی کئی دن فاقہ کشی کے گزارے ہیں لیکن کسی سے مانگنا نہیں آتا۔ زندگی کا آخری سہارا واحد لخت جگر ہے اس کی زندگی بچانے کیلئے آرٹسٹ والد نے گھر کی جمع پونجی بھی علاج پر لگا دی ہے لیکن حالت میں کوئی بہتری نہ آسکی، اخلاق کو ہر ہفتے خون کی بوتل لگتی ہے اس پر اس کے والد کا کہنا ہے کہ برسوںسے بچے کیلئے خون کی بھیک مانگتا رہا ہوں ہر ہفتے خون کی بوتل ملنا بھی بہت مشکل ہے جو انسان دوست خون دیتے ہیں ان کا شکرگزار ہوں لیکن صرف خون بچے کی زندگی بچانے کا مستقل حل نہیں ہے اس نے حکومت اور مخیر حضرات سے بچے کا علاج کرانے اور ان کی زندگی بچانے کی اپیل کی ہے۔ بیوی شوہر کیلئے ‘ بھائی بہنوں کیلئے والد بیٹے کیلئے فکر مند ہے کیا ریاست اور اس کے حکمراں اپنے شہریوں کیلئے بے چین ہیں؟ شاید نہیں۔