ولی کامل مولانا فضل محمد کی دینی خدمات
عرس مبارک کی تقریب آج فقیروالی میں ہورہی ہے
تاریخ اسلام اہل اللہ کے عظیم کارناموں سے بھری پڑی ہے جنہوں نے نہایت مشکل حالات میں دین اسلام کی آبیاری کی۔برصغیر پاک و ہند میں خواجہ معین الدین چشتی ؒ،حضرت علی ہجویریؒ،خواجہ قطب الدین بختیار کاکیؒ،اور حضرت فرید الدین گنج شکرؒجیسے بزرگ صوفی حضرات کی محنت کی وجہ سے یہ خطہ اسلام کی روشن کرنوں سے منور ہوا۔ایسی ہی ایک عظیم بزرگ ہستی نے ریاست بہاولپور میں اسلام کی شمع روشن کی جب یہ علاقہ کفر و شرک ،بدعات اور رسومات کے اندھیروں میں گھرا ہوا تھا۔ اس سیاہ دور میںریاست بہاولپور کے دور افتادہ ،پسماندہ فقیروالی نامی قصبہ کے تاریک مطلع پر 15اگست1937ء کو ایک عظیم بزرگ ماہتاب کی صورت میں طلوع ہوتا ہے جسکا نام ولی کامل حضرت مولانا فضل محمدؒہے۔جو اپنے ایک ہاتھ میں نور علم کی شمع تھامے ہوئے ہے اور دوسرے ہاتھ میں اتباع سنت کا علم جسکی نگاہ بلند،سخن دلنواز،اور جان پر سوز ہے۔جو اپنے سینہ میں ملت اسلامیہ کے لیے دھڑکنے والا ایک قلب بیدار رکھتا ہے۔جو اپنے نام کے عین مطابق اس علاقہ کے لیے سراپا فضل ؒبن کے آئے۔جونہی انہوں نے شمع علم روشن کی تو ہزاروں کی تعداد میں لوگ دیوانہ وارانکے اردگرد اکٹھے ہو گئے۔مولانا فضل محمدؒ 3اپریل1904ء کو سنگووال ضلع جالندھر میں پیدا ہوئے۔ابتدائی تعلیم آپ نے اپنے گاؤں میں حاصل کی پھر کچھ سال حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی ؒکی خدمت میں رہے۔13برس کی عمر میں حضرت حکیم الامتؒ کی شان میں ستر پچھتر اشعار پر مشتمل ایک ایسا قصیدہ سپرد قلم کیاجو وارفتگی میں بے ساختگی کا آئینہ دار بھی ہے اور فصاحت و سلاست میں پنجابی ادب کا ایک نادر شاہکار بھی۔سند فراغت آپ نے براعظم ایشیاء کی عظیم اسلامی یونیورسٹی "دارلعلوم دیوبند"(انڈیا) سے حاصل کی۔
آپ کے اساتذہ میںشیخ اسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی ؒ،شیخ الادب حضرت مولانا اعزاز علی ؒمولانا محمد اشرف علی تھانوی ؒ۔شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد ابراہیم بلیاوی ،حضرت مولانا محمد ادریس کاندھلوی ،حضرت مولانا خیر محمد ؒ،حضرت مولانا محمد اشفا ق کاندھلوی ؒ شامل ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ فضلا دارالعلوم دیوبند جہاں بھی پہنچے اپنے ساتھ سنت نبوی اور علم مصطفوی کا نور لیکر پہنچے۔وہ جن راہوں سے گزرے اپنے پیچھے ایمان و ایقان کی قندیلیں فروزاں کرتے گئے ۔انہوں نے ظلمت کدہ بدعات میں قدم رکھا تو دماغوں پر چھائے ہوئے فاسد خیالات کی سیاہی کائی کی طرح چھٹ گئی۔وہ جس جگہ بیٹھ گئے وہیں ایک مدرسہ بن گیا۔1937ء میں فقیروالی کی ایک کچی آٹھ فٹ چوڑی مسجد میں جب اس بزرگ نے ڈیرے لگائے تو یہاں کے باسیوں میں یہ روایت زبان زد عام تھی کہ ایک خدا رسیدہ بزرگ حاجی عبدالکریم بغدادیؒ جنہیں وہ حضرت حاجی امداداللہ مہاجر مکیؒ کے خلفاء میں شمار کرتے تھے جب یہاں انہوں نے نماز پڑھی تو فرمایا "مجھے یہاں سے خوشبو ئے علم آرہی ہے"۔اللہ تعالیٰ نے انکے کشف کو جامعہ قاسم العلوم فقیروالی کی شکل میں ظاہر کیا جس طرح کہ مجاہد کبیر حضرت مولانا سید احمد شہیدؒ نے دیوبند سے گزرتے ہوئے چھتہ کی مسجدمیں نماز پڑھتے ہو ئے یہ فرمایا مجھے یہاں سے علم کی خوشبو آرہی ہے تواللہ تعالیٰ نے انکے اس کشف کودارالعلوم دیوبندکی شکل میں لائے ۔ اس سے ادارہ کی اپنی مادر علمی سے مماثلت اور معنوی برکات میں اس سے گہری مناسبت ظاہر ہوتی ہے۔ حضرت مرحوم ؒ شعر وشاعری کا نہایت نفیس اور صاف ستھرا ذوق رکھتے تھے۔ کوئی اچھا شعر سن لیتے خوب داددیتے۔پنجابی کے آپ بہت اچھے شاعر تھے ۔عربی میں امرء القیس ؒ،فارسی میں حضرت سعدیؒ،خواجہ حافظؒ،غنیمت کنجاہیؒ ،حکیم قا ٓنیؒ،علامہ اقبالؒ آپ کے پسندیدہ شاعر تھے۔
مولانا فضل محمد نے دین کے ساتھ ساتھ اعلیٰ سماجی ،سیاسی،فلاحی خدمات سر انجام دیں اور ہر ملکی تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تحریک پاکستان ہو یا تحریک خلافت ،تحریک ختم نبوت ،تحریک نظام مصطفی ہر تحریک میں آپ ہراول دستے میں رہے۔آپ کی دینی،ملی خدمات کے اعتراف میں آپ کو حکومت پنجاب نے سیشن کورٹ بہاولنگر میں 1964 میں مشیر برائے امور شرعیہ نامزد کیا۔آپ کو 1967 میں اعلیٰ خدمات کے اعتراف میں حکومت پنجاب نے حسن کارکردگی ایوارڈ سے نوازا۔آپ وفاق المدارس العربیہ پاکستان کی مجلس عاملہ کے رکن رہے ہیں۔وفاق کے نصاب کو بنانے میں انہوں نے بہت زیادہ کام کیا 1976ء میں آپ نے حج بیت اللہ کی سعادت حاصل کی۔1980ء میں دارالعلوم دیوبند کے صد سالہ اجلاس میں شریک ہوئے۔واپسی پر آپ کی طبیعت خراب ہوگئی بالآخر یہ آفتاب رشد وہدایت ۲۳ فروری۱۹۸۱ء کی شب ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ابدی نیند سو گیا۔ انکی وفات سے قوم تحریک پاکستان کے عظیم مجاہد اور عالم اسلام کی ایک عظیم ہستی سے محروم ہوگئی ۔
٭٭٭٭٭٭