محمد اقبال دیوان کیلئے ایک کالم

Dec 23, 2024

فاروق عالم انصاری

شعیب بن عزیز سے پوچھا۔ محمد اقبال دیوان کو پڑھا ہے؟ پوچھنے لگے۔ یہ صاحب کون ہیں؟ ان کے سوال پر حیرت ہوئی۔ اللہ خیر کرے۔ لاہور اور کراچی کے درمیان فاصلے بڑھ گئے ہیں، لکھنے والوں کے درمیان کچھ اور بھی۔ اب تو کراچی، حیدرآباد میں شائع ہونے والی کتابیں بھی لاہور سے کم کم ہی دستیاب ہیں۔ اردو،انگریزی ادب شعیب بن عزیز نے بہت پڑھا ہے۔ اتنا پڑھا ہے، لو! اپنے فرخ یار، یاد آگئے۔ یہ وہی فرخ یار ہیں جنہوں نے’’عشق نامہ شاہ‘‘جیسی شاندار کتاب لکھ کر پنجابی زبان کے درویش شاعر شاہ حسین کی کہانی سے مادھو لال حسین کھرچنے کی کوشش کی ہے۔ فرخ یار نے کہا:
ہم نے ان کو اتنا دیکھا جتنا دیکھا جا سکتا تھا 
لیکن پھر بھی دو آنکھوں سے کتنا دیکھا جا سکتا تھا
دو آنکھوں سے کتنا دیکھا جا سکتا ہے؟پھر زندگی بھی کتنی مختصر سی ہے۔۔۔
اک فرصتِ گناہ ملی وہ بھی چار دن، 
دیکھے ہیں ہم نے حوصلے پروردگار کے۔ 
زندگی مختصر ہونے کے گلہ گزار فیض احمد فیض ہیں، شاعرِ رومان اختر شیرانی اور ڈھب سے بات کرتے ہیں۔ 
جوانی ہو گر جاودانی تو یارب 
تیری سادہ دنیا کو جنت بنا دیں
مختصر سی زندگی میں جوانی کے ایام مختصر تر ہیں۔ کئی جنموں پر یقین رکھنے والے مہاتما گاندھی جامعہ ملیہ  کے کتب خانے میں داخل ہوئے۔ وائس چانسلر ڈاکٹر ذاکر حسین سے اپنی توتلی زبان میں پوچھنے لگے۔ ’’جاکر حسین یہاں کتنی کتابیں ہونگی؟ دس ہزار، بیس ہزار، پچاس ہزار، ایک لاکھ۔ نہیں پڑھ سکتا بندہ ایک جنم میں اتنی کتابیں‘‘۔ یہ کہتے ہوئے کتب خانہ سے لوٹ آئے۔ قصوری درویش حضرت بلھے شاہ جب ’علموں بس کریں او یار‘ کہتے ہیں تو وہ یہی بات کرتے ہیں۔ 
کالم شعیب بن عزیز سے ایک ادیب کی کتابیں پڑھنے کے سوال پر شروع ہوا۔ شعیب نے بہت پڑھا ہے لیکن بہت کم لکھا ہے۔ شاعری میں لکھا، کہاں کہلواتا ہے۔ سو انہوں نے جتنا کہا ہے وہ زبان زد عام ہے۔ شاید ان دنوں کتابوں کی بے حرمتی دیکھ کر وہ اپنی شاعری شائع کروانے سے انکاری ہیں۔ لاہور کے ایک معروف پبلشر علامہ عبدالستار عاصم انہیں منہ مانگی رائلٹی دینے کو تیار بیٹھے ہیں لیکن ادھر سے صرف مسلسل انکار ہی سننے میں آرہا ہے۔ بات ختم کرتے ہیں۔محمد اقبال دیوان کی منگوائی گئی چار کتابوں میں سے دو انہیں بھجوا دی ہیں۔ دیکھئے فیس بک پر اس بارے کیا پڑھنے کو ملتا ہے۔ 
حضرت آغا شورش کاشمیری نے جوش ملیح آبادی کی آب بیتی ’’یادوں کی بارات کو‘‘’کوک شاستر‘ لکھا تھا۔’کوک شاستر‘ بارے لکھنے کی ضرورت نہیں کہ یہ کیا بد بلا ہے۔ جوش ملیح آبادی ادھار رکھنے کے قائل نہیں تھے۔ انہوں نے آغا شورش کاشمیری کو ایک غصے بھرا خط لکھا۔ خط ’اول افغان کی طرف سے سوم بذات کشمیری کے نام‘سے شروع ہوتا تھا۔ آغا شورش کاشمیری نے یہ خط بصد احترام اپنے ہفت روزہ ’’چٹان‘‘کے اگلے شمارے میں شائع کروا دیا۔ راغب مراد آبادی نے اپنے نام جوش ملیح آبادی کے فحش خطوط شائع کروا دیئے تھے۔ کاش یہ خط بھی ڈھونڈ کر کوئی اسی کتاب میں لا جمع کرے۔ بہر حال ہم کشمیری نہیں اور نہ ہی محمد اقبال دیوان افغان ہیں پھر بھی ان کی کتابوں کو، کوک شاستر کہنے سے احتیاط برتتے ہیں۔ ان کی تحریروں میں بیڈ روم ہیں، بیڈ ہیں، عورتیں ہیں، ان کی رنگ برنگی زرق برق پوشاکوں کا ذکر ہے، زیورات، میک اپ کے سامان کی تفصیلات ہیں۔ اونچے حلقوں میں اور ہوتا بھی کیا ہے۔ حیرت ہے کہ دیوان جی کو ان تفصیلات میں لکھنے پڑھنے کی فرصت کیسے میسر آگئی۔ وہ اردو، انگریزی کے بہت صاحب مطالعہ آدمی ہیں۔ اعلیٰ سول سروس میں رہے ہیں۔ ایک دنیا دیکھے ہوئے ہیں۔ جناب کالم نگار اشرف شریف نے ان سے چند منٹ فون پر بات کروائی لیکن ان سے لمبی ملاقات کو جی ہے۔ 
سعود عثمانی اس صدی کو کتابوں سے عشق کی آخری صدی قرار دیتے ہیں۔ ان کے مطابق وہ کاغذ کی مہک بھی نہیں رہے گی، لیکن ایسا نہیں ہوگا۔ تحریر پتوں، کھالوں، پتھروں سے ہوتی ہوئی کاغذ تک پہنچی ہے اور بہتر صورت سامنے آسکتی ہے۔ جب تک زمین پر آدم زاد ہے کتاب رہے گی اور اللہ کی کتاب بھی۔ ’’کتا جو ایک آدمی تھا‘‘جیسا شاہکار افسانہ لکھنے والے اسلم سراجدین جلد ہی دوسری دنیا کو چل دیئے۔ کہا کرتے:’روزگار سے فرصت ملے اور عمر بھی وفا کرے تو لاطینی سیکھ لوں۔ پھر ’’مکالمات افلاطون‘‘کی چھ کی چھ جلدیں لاطینی زبان میں پڑھوں۔ پھر تو کیا مزہ آئے۔ انسانی تہذیب کی یہ اولین کتابیں لاطینی سے عربی اور پھر عربی سے مختلف زبانوں میں پہنچی ہیں۔ 
کالم کے آخر میں محمد اقبال دیوان کی کتاب سے ایک سنجیدہ سا’’نمونہ کلام‘‘
’’علی اشرف راجپوت کا تعلق چکوال سے ہے۔ اسے پنجاب میں لانس نائیکوں کا ضلع کہتے ہیں۔ فوج کو یہاں انگریز کے زمانہ سے کڑیل، گھبرو جوان، بہتات سے ملا کرتے تھے۔ علی اشرف کہتا ہے کہ چکوال کا ضلع ایک عجب مضموعہ اضداد ہے۔ یہاں کے لانس نائیک خود کو جرنیل اور دنیا یہاں کے جرنیلوں کو لانس نائیک سمجھتی ہے۔ یہاں کے مرد کڑیل، عورتیں حسین اور گھوڑے، بیل ناچنے کے شوقین ہیں۔ یہ سب مل جل کر علم و عقل، دولت اور نرم مزاجی سے نا آشنا ہیں‘‘۔ 
’’کراچی اب مچھیارن، بڑی بی، مائی کولاچی کا پرانا شہر نہیں۔ یہاں اپنے نمائندہ شہروں یعنی کوئٹہ سے زیادہ بلوچ، پشاور سے زیادہ پختون، لکھنؤ سے زیادہ مہاجر اور نواب شاہ سے زیادہ سندھی آباد ہیں۔ اس کا شمار دنیا کے تیسرے بڑے شہر سے ہوتا ہے۔ بربادی اور خطرات میں یہ نمبر ون ہے اور دنیا کے سو ملکوں کے برابر یہ شہر ہے۔ یہاں صرف واٹر ٹینکر مافیا کی سالانہ آمدنی ہزار کروڑ روپے ماہانہ کے لگ بھگ ہے‘‘۔

مزیدخبریں