سندھ میں پیپلزپارٹی کی قیادت نے اپنے ارکان اسمبلی کو ہدایت کی ہے کہ وہ اپنے استعفے پارٹی لیڈر شپ کو جمع کرادیں۔ حکومت سندھ قیمتیں کنٹرول کرنے میں ناکام رہی ہے۔ بلدیاتی ادارے صرف تنخواہیں دینے والے ادارے بن کر رہ گئے ہیں۔ خیبر پختونخوا میں صحت کا معیار بد سے بدتر ہوتا جارہا ہے۔
وزیراعلیٰ کو ’’سب اچھا‘‘ کی رپورٹ دی جاتی ہے جبکہ ’’سب اچھا‘‘ نہیں ہے۔ مولانا فضل الرحمان کے خلاف بھی نیب نے اپنا دائرہ تنگ کر دیا ہے۔ بلوچستان میں بھی پی ڈی ایم کی جانب سے اعلان کے بعد استعفے جمع کرانے کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔ بلوچستان کے چودہ سے زائد اپوزیشن اراکین اسمبلی نے اپنے استعفے مرکزی قیادت کو بھجوا دیئے ہیں۔ سینٹ الیکشن میں شو آف ہینڈ کے ذریعے صاف شفاف انتخابات کا عمل یقینی ہو گا اور کوئی بھی پیسے والا امیدوار ووٹ خرید کر کامیاب نہیں ہو سکے گا۔ سینٹ کے انتخابات کیلئے بلوچستان وہ واحد اسمبلی ہے جس کے رکن کا ووٹ ایک ووٹ مانا جاتا ہے۔ اسی بناء پر سرمایہ داروں کیلئے ووٹ خریدنا آسان رہا۔
پی ڈی ایم کے لاہور جلسے میں جنوبی پنجاب سے بھی لوگ آئے حکومت نے جنوبی پنجاب میں بعض ترقیاتی کاموں کیلئے فنڈز جاری کئے ہیں۔ مدت سے کام نہ ہونے کے باعث گلیاں کھنڈر بن چکی ہیں۔ اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے ارکان اسمبلی فنڈز نہ ملنے کا شکوہ کر رہے ہیں۔ سینٹ کے قبل از وقت الیکشن کے اعلان نے ایک نیا پینڈورا باکس کھول دیا ہے۔ مولانا فضل الرحمان کی نظر میں صدارتی آرڈی ننس سے سینٹ الیکشن کا طریقہ کار انہیں بدل سکتا۔ شو آف ہینڈز کے ذریعے سینٹ الیکشن غیرآئینی ہے۔ الیکشن کرانا الیکشن کمیشن کا کام ہے۔ وزیراعظم کو کس نے یہ اختیار دیا ہے کہ وہ اس کا اعلان کریں۔
آئین کے آرٹیکل 213 کے تحت الیکشن کی تاریخ دنیا الیکشن کمیشن کا کام ہے جبکہ آرٹیکل 224 یہ بتاتا ہے کہ الیکشن کب ہونگے۔ متضاد آراء اور رائے زنی کا سلسلہ جاری ہے۔ سینٹ کی 52 نشستیں 12 مارچ کو خالی ہونیوالی ہیں۔ پی ٹی آئی اور اتحادی پارٹیوں کو سندھ کی صوبائی اسمبلی کے سوا تمام ایوانوں میں اتنی نشستیں حاصل ہیں کہ سینٹ الیکشن میں عددی اکثریت ملنے کی قوی امید ہے۔
سینٹ الیکشن میں ہارس ٹریڈنگ کے الزامات لگتے ہیں اس لئے سینٹ انتخابات خفیہ رائے شماری کے بجائے شو آف ہینڈز کے ذریعے کرائے جائیں گے۔ آئین پاکستان میں اوپن بیلٹ کی بظاہر کوئی ممانعت نہیں اچھا ہوگا کھنچائو اور تنائو کی کیفیت سے باہر آیا جائے۔ انتخابی اصلاحات اور شفافیت حکومت کی ہی نہیں‘ اپوزیشن کی بھی ضرورت ہے۔ پی ڈی ایم نے عمران خان کو 31 جنوری تک مہلت دے دی ہے۔ بلند بانگ دعوئوں اور توقعات کا بھرم کھل رہا ہے۔ ملک میں استحکام لانا اولین ضرورت ہے۔
ضروری نہیں انتخابات کرانے کا اعلان اپوزیشن کے لانگ مارچ کو روکنے یا اس میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش تو ہو سکتی ہے مگر اس کی کوئی اضافی وجہ نظر نہیں آتی۔ بالآخر مذاکرات کی طرف آنا ہوگا۔ شو آف ہینڈز کا مقصد انتخابات میں شفافیت لانا ہے تو اس پر کسی کو معترض نہیں ہونا چاہیے۔ چیئرمین سینٹ کیخلاف تحریک عدم اعتماد ناکامی خفیہ رائے شماری کے باعث ہوئی تھی۔ (ختم شد)
٭…٭…٭
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024