جنرل راحیل شریف نے جس طرح قومی سلامتی کی جنگ کی کمان سنبھال لی ہے، اس سے سب کو پتہ چل جانا چاہئے کہ یہ جنگ اب صرف پاک فوج کو لڑنی ہے اور وہ ملکی دفاع کے لئے خون کا آخری تک بہانے سے گریز نہیں کرے گی۔
کون احمق ہے جسے یہ خبر نہیں ہو سکی کہ دہشت گردوں کو ٹھکانے لگانے کے لئے فیصلے کون کر رہا ہے،یہ فیصلے وہی کرے گا جس کے زیر انتظام چلنے والے اسکول میں ڈیڑھ سو پھولوں کا خون کیا گیا ہے۔دہشت گردوںنے تاک تاک کر نشانے لگائے، یہ پوچھ کر نشانے لگائے کہ فوجی کی بیوی کون سی ہے اور فوجیوںکے بچے کون سے ہیں، اس کے بعد انہوںنے قتل عام کیا اور ہلاکو، چنگیز اور ہٹلر کی سفاکیت کو مات کر دیا۔ان کا خیال تھا کہ قوم یہ سوال پوچھے گی کہ فوج اپنے اسکول کا دفاع نہیںکرسکتی تو قوم کا دفاع کیسے کرے گی، یہ سوال ابھی اٹھنے ہی والا تھا کہ جنرل راحیل نے حالات کی باگ ڈور خود سنبھال لی اور قوم پر واضح کیا کہ وہ اپنی اور ملک کی اور قوم کی سلامتی کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے ہیں اورا س کے لئے کوئی دقیقہ فرو گزاشت نہیںکریں گے۔ وہ جہاز پکڑا اور سیدھے اس ملک کے حکمران کے پاس جا پہنچے جس کی سرزمین سے معصوموں کی شہادتوں کی سازش تیار کی گئی ا ور اسے عملی جامہ پہنایا گیا۔ یہ کام ہمارے وزیر دفاع کا تھا، وزیر داخلہ کا تھا یا وزیر خارجہ کا تھا تو وہ پہل کرتے اور کابل چلے جاتے، راحیل شریف کو روک دیتے کہ وہ پیش رفت نہ کریں ، سول ، منتخب، دو تہائی کی اکثریت کی حامل حکومت جانے ا ور دہشت گرد جانیں مگر فوج کے سربراہ جانتے تھے کہ ان تلوںمیں تیل نہیں، انہوںنے تو پچھلا ایک سال کمیٹیوں میں ضائع کیا اور دہشت گردوں کو افغانستان فرار ہونے کا موقع اور وقت فراہم کیا، ایک کمیٹی عرفان صدیقی کی تھی، دوسری کمیٹی فواد حسن فواد کی تھی، ادھر سے پروفیسر ابراہیم اورسمیع الحق کی کمیٹی تھی ، اس میں کسی مولوی عبدالعزیز کو بھی شامل کیا گیا تھا مگر ان کی بیل منڈھے نہ چڑھ سکی ا ور وہ ا ب پھنکا ر رہے ہیں۔محسود ڈرون حملے میں مارا گیا اور وزیر داخلہ نے ٹی وی پر اس کا نوحہ پڑھا۔اس کے بعد ایک جرنیل کی شہادت عمل میں آئی ، کوئی اس کے جنازے میں شریک نہ ہوا۔ اس ذہنیت کے ساتھ دہشت گردی کی جنگ کو کیسے روکا جاسکتا تھا، اس نے تو موقع فراہم کیا کہ دہشت گرد پشاور کے چرچ پر حملہ کریں، اور چین کے صوبے کاشغر کے دارالحکومت اورمچی میں واردات کر گزریں اور پھر آخری وار کراچی کے بین الاقوامی ایئر پورٹ پر کیا گیا۔ صبر اور برداشت کی کوئی حد ہوتی ہے، مذاکرات کے ڈرامے کی بھی کوئی حد ہونی چاہئے تھی ، سب حدیں پار کی جا چکیں تو فوج نے ضرب عضب کا بگل بجا دیا اور اس میں دنیا بھر کی توقعات کے برعکس شاندار کامیابی حاصل کی، امریکہ مان گیا، چین مان گیا، بھارت انگشت بدنداں رہ گیا، پاک فوج کی مہارت کی ہر ایک نے داد دی اور کھل کر دی۔
فوج کے لئے اب یہ فتوے کوئی حیثیت نہیں رکھتے تھے کہ اس کے جوان اور افسر شہید ہو رہے ہیں یا دہشت گرد شہادت کے رتبے پر سرفراز ہو رہے ہیں، فوج کو اپنے اس آئینی حلف کااحساس تھا جس کی رو سے وہ ملکی اور قومی سلامتی کی ذمے دار ٹھہرائی گئی ہے۔ فوج کے سامنے اپنے شہدا کی روشن مثالیں تھیں، میجر عزیز بھٹی شہید، میجر شبیر شریف شہید، راشد منہاس شہید اور یہ ایک کہکشاں ہے، قوس قزح کی طرح ہفت رنگ۔ فوج کو کوئی ڈر نہیں تھا کہ وہ ایسے علاقے میں گھس رہی ہے جہاں فاتحین عالم قدم نہیں رکھ سکے، فوج عمران خاںکے ڈراوے میںنہیں آئی کہ آپریشن ہوا تو فاٹا الگ ہو جائے گا، فوج کو منور حسن اور سراج الحق کے وعظ سے کوئی سروکار نہ تھا، فضل الرحمن، سمیع الحق یا نواز شریف کی ذاتی سوچ کی بھی ا سے کوئی پروا نہ تھی، اب اس کے سامنے ایک میدان سجا ہوا تھا، قربانیوں کا، جرا¿توں کا، شجاعتوں کا، وہ میدان میں کود چکی تھی اورا س کے نتائج اسی کو بھگتنے تھے، ایک نتیجہ پشاور کے سکول میں سامنے آ گیا، فوج کے دل پر نشانہ لگا، جنرل راحیل شریف کے یہی الفاظ تھے، دل چیر کے رکھ دیا گیا تھا تو فوج کو سلامتی کی جنگ کو نتیجہ خیز بنانے کے لئے کس کی اجازت درکار تھی، کسی کی نہیں ، جنہوںنے اجازت دینا تھی، وہ تو دہشت گردوں سے مذاکرات کے حامی تھے، اب پھر ایک کمیٹی بن گئی ہے، سانحہ پشاور کو ایک ہفتہ گزر چکا، پشاورا ور اس کے نواح میںننھی منی قبروںکی نئی ڈھیریاں ابھر آئیں اور شاید ان پر ڈالے گئے گلاب کے پھول ابھی سوکھے بھی نہیں لیکن اس کمیٹی کو توفیق نہیںہوئی کہ وہ کوئی پالیسی بنا سکتی۔ قومی اتفاق رائے کے لئے اگر یہ کمیٹی ضروری تھی تو اسے احساس ہونا چاہئے تھا کہ ملک حالت جنگ میں ہے، ملک بھر میں تمام تعلیمی ادارے بند پڑے ہیں، عمران تو ملک کو بند نہ کر سکا، یہ کام دہشت گردوںنے کر دکھایا اورا س کے جواب میں کمیٹی کو جو کرنا چاہئے تھا ، وہ اس سے نہ ہو سکا۔ابھی کل کی بات ہے جب ان سیاستدانوں کو خود خطرہ محسوس ہوا تھا، قادری ا ور عمران نے ان پر یلغار کی تو وہ بلا ناغہ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں شریک ہوئے اور ستم ظریفی ملاحظہ ہو کہ قادری اور عمران کو للکارنے یا پٹخنے کے بجائے ان کی تقریروں اور قراردادوں کا رخ فوج کی جانب تھا۔اب کمیٹی کو چھٹیاں بھی یاد آ گئی ہیں اور اس دوران میں اسپیکر نے انیس سوستر کے بعد سے تما م ارکان اسمبلی کے لئے بلیو پاسپورٹ جاری کرنے کا حکم صادر کر دیا ہے، آخر کس خدمت کے عوض ، وہ خدمت جو انہوںنے اپنی تجوریاں بھرنے کے لئے کی۔
یہ درست ہے کہ فوج کے لئے سنگین خطرات ہیں۔جماعت اسلامی کے لئے نہیں، ن لیگ کے لئے نہیں ، جے یو آئی کے لئے نہیں، شاید اب پیپلز پارٹی اور اے این پی کے لئے بھی نہیں ،ہم خود کہتے ہیں کہ فوج نے یہ خطرات امریکی حلیف بن کر مول لیئے، لال مسجد روند کر لیئے، چلیئے یونہی ہی سہی، فوج اس جنگ کو لڑ رہی ہے، سارا فاٹا کلیئر کروا کر چکی ہے، دہشت گرد یا تو افغانستان بھاگ گئے ہیں یا اندرون ملک اپنے کھلے اور خفیہ سرپرستوں اورہمدردوں کی پناہ میں ہیں ، آخر واہگہ بارڈر تک خود کش بمبار کو لانے کے لئے کوئی تو سہولت کا ر سرگرم عمل آیاتھا۔ اور پشاور کے اسکول تک پہنچنے میں بھی کسی سہولت کار نے کمال دکھایا تھا۔
مگر اب دہشت گرد وںکے گرد گھیرا تنگ ہو چکا، وہ زخمی سانپ کی طرح انتقام پر تلے ہوئے ہیں اور ان کا پہلا نشانہ پاک فوج ہے ا ور ان کے بچے، قوم کے بچے بھی ان کے نشانے پر ہیں۔فوج کے پاس تمام معلومات ہیں، اس نے یہ معلومات کابل حکومت سے بھی شیئر کی ہیں اور حکومت پاکستان کو بھی ان سے آگاہ کر دیا ہے۔ آخر حالات کی کوئی تو ایسی سنگینی ہے جس پر نواز شریف ، عمران خان اور تمام سیاستدانوں کو چپ لگ گئی ہے ورنہ کون جنرل راحیل شریف کو حالات کی کمان سنبھالنے دیتا۔اور اگر جنرل راحیل کے پاس کوئی ٹھوس ثبوت نہ ہوتا تو کابل حکومت ان کے جہاز کو اپنے ملک کی فضا ہی میںنہ گھسنے دیتی۔
تو حضرات! آپ بحث کرتے رہیں کہ یہ جنگ کس کی ہے، مگر لگتا ہے کہ فوج نے فیصلہ کر لیا ہے کہ یہ اس کی جنگ ہے اور وہ اسے اپنے طریقے سے لڑے گی۔وہ اس جنگ کی کمان کر رہی ہے اور وہی زخم بھی سہہ رہی ہے تو آپ کا اعتراض کیا ہے۔اس کا ساتھ دینا آپ کا فرض ہے کہ فوج اس ملک کے لئے قربانیاں دے رہی ہے اور گر آپ اس کا ساتھ نہیں دیں گے، عدالتوںمیں جائیں گے، اسٹے لیں گے، ٹاک شوز میں دھول اڑائیں گے اور سوشل میڈیا پر منافرت پھیلائیں گے تو نقصان کس کا ہے ، کیا صرف فوج کا، کیاا ٓپ نے دہشت گردوں سے امن کا پروانہ لکھوا لیا ہے۔