ایک زمانہ میں ہمارے کئی ترقی پسند دوست پاکستان میں سوشلسٹ انقلاب برپا کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ اس زمانے میں سوویت یونین ایک سپر طاقت تھا اور سوشلسٹ عوامی جمہوری چین ایک ابھرتی ہوئی سوشلسٹ قوت تھی۔ ترقی پذیر ملکوں میں ترقی پسندوں کی تحریکیں عروج پر تھیں۔ پاکستان میں ترقی پسند لوگ نظام کی تبدیلی سے زیادہ اسلام پر نکتہ چینی کرتے تھے۔ کئی ترقی پسند دانشوروں کا وطیرہ یہ تھا کہ وہ مذہب اور خاص طور پر اسلام پر اور علماءپر سخت تنقید کرتے تھے۔ ان کے خلاف لکھتے تھے۔ ان حضرات کی توانائیاں سیاسی‘ سماجی اور معاشی انقلاب لانے سے زیادہ مذہب خاص طور پر اسلام کی مخالفت پر صرف ہوتی تھیں۔ یہی ایک وجہ تھی کہ پاکستان اور دوسرے اسلامی ملکوں میں سوشلزم کو لادین نظام حیات قرار دیا گیا۔ جب ذوالفقار علی بھٹو نے سوشلزم کو اپنی پارٹی کا معاشی پروگرام بنایا تو ان کی مخالفت میں بے پناہ اضافہ ہوا۔ بعد میں انہوں نے ”سوشلزم ہماری معیشت ہے“ کے نعرے میں ترمیم کر کے اسلامی سوشلزم ” مساوات محمدی“ کو اپنا معاشی پروگرام قرار دیا تھا۔
آج کل ترقی پسندوں کی جگہ ”سول سوسائٹی“ نے لے لی ہے۔ سول سوسائٹی نے بھی یہ وطیرہ بنا لیا ہے کہ اسلام اور اس کی تعلیمات کو ہدف تنقید بنایا جائے۔ سول سوسائٹی والے اسلام پر نکتہ چینی کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ انسانی حقوق کا معاملہ ہو یا خواتین کے حقوق کی بات ہو ‘ سول سوسائٹی والے اسلام کو ہدف تنقید بنانا شروع کر دیتے ہیں۔ پشاور میں آرمی پبلک سکول پر دہشت گردوں نے جو سفاکانہ حملہ کیا اس کے بعد سول سوسائٹی والوں نے لال مسجد کے سامنے آ کر احتجاجی مظاہرہ کیا۔ یہ مظاہرہ مولانا عبدالعزیز کے ایک بیان کی بنیاد پر کیا گیا۔
اس مظاہرے سے لال مسجد والوں اور سول سوسائٹی میں تنا¶ پیدا ہوا اور ایک بحث کو چھیڑ دیا گیا۔ ایم کیو ایم اور مولانا عبدالعزیز کے درمیان بیان بازی اور کھینچا تانی شروع ہو گئی ہے ایک دوسرے کے خلاف مقدمے بھی درج کرائے گئے ہیں۔ سول سوسائٹی میں شامل بعض ”الٹرا لبرل“ عناصر خاص طور پر اسلام کی بلاوجہ مخالفت کر رہے ہیں۔ اسلام اس ملک کے آئین کی اساس ہے۔ آئین بنانے والے منتخب نمائندوں نے واضح طور پر آئین میں لکھ دیا ہے کہ اس ملک میں کوئی قانون اسلام کے منافی نہیں بنایا جا سکتا۔ آئین کی اس اساس یا بنیاد کو تبدیل کر کے ہی اس کو ایک سیکولر رنگ دیا جا سکتا ہے۔ آنکھیں بند کر کے مغربی اقدار اپنانے والوں کو یہ بھی پیش نظر رکھنا چاہئے کہ مغرب والوں نے ریاست اور مذاہب کو کئی صدیاں پہلے الگ کر دیا تھا۔ پاکستان میں ایسا کرنا ممکن نہیں ہے۔
پشاور میں دہشت گردی کے واقعہ کی سیاسی اور مذہبی جماعتوں نے بھرپور مذمت کی ہے حتیٰ کہ القاعدہ کی جنوبی ایشیا کی شاخ کے ترجمان نے پشاور میں دہشت گردی کے واقعہ کو دل خراش قرار دیا ہے۔ سول سوسائٹی والوں نے جو بحث چھیڑی ہے وہ غیر ضروری ہے۔ اصل معاملہ یہ ہے کہ کیا اسلام کے نام پر دہشت گردی کا کوئی جواز ہے یا نہیں ؟ اسلام سمیت جتنے بھی آسمانی مذہب ہیں ان کی سرشت میں دہشت گردی یا تشدد شامل نہیں ہے۔ یہ مذاہب لوگوں کے دل اور ذہن کو تبدیل کرتے رہے ہیں۔ سارے پیغمبروں نے جو ہتھیار استعمال کیا وہ تبلیغ کا تھا۔ اس میں تشدد کا عنصر شامل نہیں تھا۔ اسلام میں بھی جنگ اس وقت لڑی گئی جب مسلمانوں پر جنگ مسلط کی گئی۔ نبی کی کمان میں جب مکہ فتح ہوا تو انہوں نے اپنے بدترین مخالفین کو بھی معاف کرنے کی پالیسی اپنائی اور کسی سے انتقام نہیں لیا۔ بے گناہ لوگوں کو قتل کرنا اور وہ لوگ جو جنگ میں حصہ نہ لے رہے ہوں یعنی Noncombatant ہوں ان پر حملے کا کیا جواز ہے ؟ اس وقت پاکستان میں عمومی سوچ یہ ہے کہ بے گناہ لوگوں پر خودکش حملے کرنے کا کوئی جواز نہیں‘ اس کی حمایت مذہبی جماعتیں بھی کر رہی ہیں۔ سول سوسائٹی والے اس سوچ کو اپنے طرز عمل سے نقصان پہنچا رہے ہیں۔