سزائے موت پر عملدرآمد کے خلاف تنظیمیں پھر سرگرم
پشاور کے آرمی پبلک سکول میں پیش آنے والے دہشت گردی کے دلخراش واقعے نے حکومت کو سزائے موت پر عملدرآمد کے لئے عارضی پابندی اٹھانے پر مجبور کر دیا۔ وزیراعظم نے یہ پابندی اٹھانے کا اعلان سیاسی رہنمائوں کے اجلاس سے قبل اس وقت کیا جب ان سے چیف آف آرمی سٹاف نے ملاقات کی۔ قانونی حلقوں، وکلاء کی اکثریت اور مختلف شعبہ ہائے زندگی کے افراد نے اس حکومتی فیصلے کو سراہا۔ جب چیف آف آرمی سٹاف نے دہشت گردی کے مقدمات میں ملوث 6مجرموں کے ڈیتھ وارنٹ پر دستخط کئے اور صدر مملکت نے زیر التوء 17مجرموں کی اپیلیں مسترد کر دیں تو لوگوں کو یقین آگیا کہ سزائے موت پر عملدآرمد جلد شروع ہونے والا ہے، مگر حکومت کی طرف سے 19دسمبر کی رات دو دہشت گردوں کو پھانسی دے دی گئی۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ حکومت دہشت گردوں کو ختم کرنے میں ایک لمحے کی بھی تاخیر نہیں کرنا چاہتی مگر لاہور ہائیکورٹ نے 5قیدیوں کو دی گئی سزائے موت کی سزا کو معطل کر دیا ہے۔ملزمان کے وکیل نے موقف اختیار کیا کہ فوجی عدالت سویلین کا کورٹ مارشل نہیں کر سکتی اس کے باوجود ان کے موکلان کو ملک کے قانون کیخلاف فوجی عدالتوں میں سزا دی گئی۔عدالت نے 12 تک وفاق اور صوبائی حکومتوں سے جواب طلب کر تے ہوئے پانچ ملزمان کی سزائے موت پر عملدرآمد بھی روک دیا ہے۔ سابق حکومت نے انتظامی حکم کے ذریعے سزائے موت پر عملدرآمد اس وقت روک دیا تھا جب یورپ، امریکہ اور کینڈا وغیرہ نے سزائے موت کوغیر انسانی سزا قرار دیتے ہوئے اسے ختم کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ مختلف این جی اوز اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے بھی اس مطالبے کی حمایت کی ان تنظیموں کا یہ بھی کہنا تھا کہ پاکستان کے نظام میں ملزموں کو فیئر ٹرائل کے مواقع کم ملتے ہیں۔ اور بہت بے گناہ لوگوں کو بھی سزا مل جاتی ہے۔ وزیراعظم کی طرف سے سزائے موت پر عملدر آمد کی منظوری سے تنظیمیں پھر سرگرم ہوگئی ہیں مگر پشاور میں دہشت گردی کے بڑے واقعے میں سکول کے معصوم بچوں کی شہادت سے قوم کی غالب اکثریت اور بعض اہم ریاستی اداروں کا دبائو اتنا زیادہ ہے کہ حکومت کو یہ فیصلہ کرنا ہی پڑا۔ بعض سماجی حلقے یہ کہہ رہے ہیں کہ اگر حکومت پہلے یہ فیصلہ کرلیتی تو اس کے مثبت نتائج بر آمد ہوتے۔ قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ دستور پاکستان اور مروجہ قوانین کے تحت سزائے موت پر عملدرآمد پر جتنی دیر پابندی لگائی گئی یہ اقدام نہ صرف دستور اور قوانین کے منافی تھابلکہ اس سے جرائم میں اضافہ ہوا اور ملک میں قتل کی وارداتیں خطرناک حد تک بڑھ گئیں، سزائے موت کے فیصلے پر عملدر آمد روکنا دستور میں شامل اسلامی شقوں سے بھی متصادم تھا ۔ اسی طرح سزائے موت کو ختم کرنا یا انتظامی احکامات کے تحت اس پر عملدرآمد معطل کرنا دستور میں شامل اسلامی آرٹیکلز سے متصادم ہے۔ قانونی حلقوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ دستور کے آرٹیکل 9 نے ہر شہری کو زندگی کے تحفظ کا حق دیا ہے۔ اگر ریاست کسی شہری کو زندگی کا تحفظ نہیں دیتی تو آرٹیکل 9 کی خلاف ورزی ہے مگر کسی کی زندگی ختم کرنے کو تحفظ دینے کی مشق دستور یا قانون میں موجود نہیں ہے۔ پاکستان میں اس وقت قتل عمد کے علاوہ ملک سے بغاوت، جعلی کرنسی، ملک کے خلاف کام کرنا، توہین رسالت، گینگ ریپ، ڈکیتی، دہشت گردی کے جرائم میں بھی موت کی سزا ہے اگرچہ قانونی ماہرین اور سماجی حلقے کچھ جرائم میں موت کی سزا کو زیادہ سزا تصور کرتے ہیں۔ مگر دہشت گردی میں اب سب کا اتفاق ہے کہ سزائے موت یہی اس کا حل ہے۔ سزائے موت کے حق میں دلائل دینے والوں کا کہنا ہے کہ جرم کے مطابق عبرت ناک سزائوں سے جرم کی شرح میں کمی واقع ہوتی ہے۔ اس سلسلے میں سعودی عرب کی مثال دی جاتی ہے۔ جہاں اسلامی سزائیں او ران پر فوری عملدر آمد ہوتا ہے، تیسری دنیا کے ممالک میں جہاں عوام میں شرح خواندگی کا تناسب انتہائی کم ہے صرف عبرت ناک سزائیں اور ان پر فوری عملدر آمد سے ہی جرائم کو کنٹرول کیا جاسکتا ہے اگر جرائم میں ملوث ملزمان کو سزا نہ ملے تو ایک طرف ایسے مجرموں کی حوصلہ افرائی ہوتی ہے جبکہ دوسری طرف سائلین کو یہ احساس دلایا جاتا ہے کہ ان کی داد رسی نہیں ہو رہی، اور وہ خود جرم کا بدلہ لینے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ ان کے مقابلے میں سزائے موت کی مخالفت کرنے والوں کا کہنا ہے کہ اگر معاشروں میں قتل کے جرم کو روکنے کے لئے سزائے موت کافی ہو تو ابھی تک قتل کے جرم کو ختم ہو جانا چاہئے تھا۔ قانونی ماہرین سپریم کورٹ کے سینئر وکیل عبدالحمید رانا، محمد اظہر صدیق اور رانا ندیم صابر نے روزنامہ نوائے وقت سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ تعزیرات پاکستان میں جس جرائم کی سزا موت مقرر کی گئی ہے وہ بہت بڑے جرائم ہیں اگرچہ قانون کے مطابق سزا تو موجود ہو مگر اس پر عملدرآمد معطل کردیا جائے، تو پھر ایسے قانون کا عملی طور پر کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ حکومت کی طرف سے سزائے موت پر عملدرآمد شروع کرنا ‘‘دیر آئے درست آئے‘‘ کے مترادف ہے۔