معزز قارئین! داستانؔ ، فارسی زبان کا لفظ ہے جو اردو میں بھی استعمال ہوتا ہے ۔ اِس کے معنی ہیں ’’ قصہ ، کہانی، افسانہ، شہرت ‘‘۔ کسی اُستاد شاعر نے اپنے بارے میں یا کسی ’’داستان گو ‘‘کی طرف سے کہا تھا کہ …؎
’’ زمانہ بڑے شوق سے سُن رہا تھا
ہمی سو گئے، داستاں کہتے کہتے !
…O…
زمانہ1970ء سے میرے دوست ، ریٹائرڈ انفارمیشن آفیسر ، انگریزی کے کالم نویس اور اینکر پرسن اعظم خلیل کی داستانِ حیات بڑے شوق سے سُن رہا تھا لیکن وہ خُود اپنی داستاں کہتے کہتے 18 اگست کو اِس دارِ فانی سے عالمِ جاودانی میں جا کر سو گیا ہے۔ لیکن مجھے یقین ہے کہ اعظم خلیل کا ہر دوست جب تک زندہ ہے وہ ، اپنی اور اعظم خلیل کی داستان کہتا رہے گا ۔
اعظم خلیل کا مذہبی ، سیاسی اور ادبی پس منظر بہت ہی تابدار تھا۔ اُس کے والد صاحب جناب خلیل اُلرحمن نے اپنے بزرگوں ، خاص طور پر اپنے ماموں ( سابق وفاقی سیکرٹری اطلاعات و نشریات (برادرم منصور سہیل ) کے والد صاحب جناب ایف ڈی۔سیفیؔ کی راہنمائی میں تحریک ِ پاکستان میں اہم کردار ادا کِیا ۔ سیفی ؔ صاحب بلند پایہ شاعر ، ادیب اور کئی کتابوں کے مصنف تھے۔ جنابِ خلیل اُلرحمن بھی نامور ادیب ، دانشور اور شاعر تھے ۔ اپنے وقت کے نامور شاعروں ، ادیبوں اور دانشوروں ، حفیظ جالندھری ، حکیم احمد شجاع، الطاف گوہر، پروفیسر محمد عثمان ، ڈاکٹر وحید قریشی، اور پروفیسر مشکور حسین یاد سے خلیل اُلرحمن صاحب کی گہری دوستی تھی۔
معزز قارئین! مَیں سرگودھا میں تھااور جب بھی مَیں اپنا ہفت روزہ اخبار جاری کرنے کے لئے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ (ڈپٹی کمشنر) کو درخواست دیتا تو، اُس کی طرف سے مجھے ’’پریس اینڈ پبلی کیشنز آرڈیننس ‘‘ مجریہ 1963ء کی دفعہ "12-F-2" کے تحت جاری کردہ "Refusal Letter" میں لکھا ہوتا کہ ’’ اگر درخواست دہندہ کو اپنا ہفت روزہ جاری کرنے کی اجازت دِی گئی تو وہ پاکستان کی مسلح افواج میں منافرت پھیلائے گا ‘‘ ۔
7 جولائی 1970ء کو نامور ادیب ، دانشور اور جناب محمد حنیف رامے کی ادارت میں ’’ پاکستان پیپلز پارٹی ‘‘ کا ترجمان روزنامہ ’’ مساوات ‘‘ لاہور سے جاری ہُوا تو مَیں اُس میں سینئر سب ایڈیٹر تھا۔ میری اپنے ایک "Colleague"( سینئر سب ایڈیٹر) برادرم مسعود سلمان سے دوستی ہوگئی ، پھر اُنہوں نے مجھے اپنے بھتیجے محکمہ اطلاعات پنجاب کے انفارمیشن آفیسر اعظم خلیل سے متعارف کرایا ۔ اعظم خلیل کے ’’ علم اُلیقین اور جرأت اظہار‘‘ کے باعث میری اُس سے بھی دوستی ہوگئی۔
معزز قارئین!اُن دِنوں شیخ حفیظ اُلرحمن محکمہ تعلقاتِ عامہ پنجاب کے ڈائریکٹر جنرل تھے ۔اعظم خلیل نے مجھے اُن سے سے ملوایا تو شیخ صاحب نے مجھے اپنے ’’ دائرہ شفقت‘‘ میں داخل کرلِیااور ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ (ڈپٹی کمشنر) لاہور سے مجھے اپنا ہفت روزہ ’’پنجاب ‘‘ جاری کرنے کی اجازت دلوا دِی۔ ہفت روزہ ’’ پنجاب ‘‘ لاہور یکم نومبر 1971ء کو جاری ہُوا اور میرا روزنامہ ’’ سیاست ‘‘ لاہور 11 جولائی 1973ء کو، پھر مجھے روزنامہ ’’ سیاست‘‘ کے ایڈیٹر اور مختلف قومی اخبارات کے کالم نویس کی حیثیت سے پاکستان کے مختلف صدور و وزرائے اعظم کی میڈیا ٹیم کے رُکن کی حیثیت سے اُن کے ساتھ آدھی دُنیا کا سفر کرنے اور اپنے ہر سفر کی داستاں کہنے موقع ملا۔
’’جنابِ بھٹو / محترمہ بے نظیر بھٹو !‘‘
اعظم خلیل کا جناب ذوالفقار علی بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو سے ہر دَور میں تعلق خاطر رہا ہے ، جس کی وجہ سے پاکستان پیپلز پارٹی کے کئی بڑے عہدیدار اُس سے خائف رہتے تھے ۔ دامادِ بھٹو آصف زرداری کو اعظم خلیل جیسے’’جرأت مندوں‘‘ کی ضرورت نہیں تھی اور نہ ہی اعظم خلیل کو ’’ زرو سیم ‘‘ کے متوالے آصف زرداری کی لیکن، اعظم خلیل زبانی اور تحریری طور پر جنابِ بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو کی جدوجہد کی داستان کہنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا تھا۔ میرے اور اعظم خلیل کے نظریاتی اختلافات کے باوجود ہماری دوستی میں کبھی آنچ نہیں آئی۔
’’ڈاکٹر خیال اعظم خلیل !‘‘
معزز قارئین! یوں تو، میری مختلف دِنوں میں اعظم خلیل سے "One On One" ملاقاتیں ہوتی رہیں لیکن 7 جولائی 2018ء کو لاہور میں جنابہ و جناب انیس اُلرحمن کے بیٹے ڈاکٹر سعد بن انیس سے اعظم خلیل کی بیٹی ڈاکٹر خیال اعظم خلیل کی رُخصتی کی تقریب تھی ۔ مَیں ’’ عارضۂ جگر ‘‘ میں مبتلا تھا لیکن، مجھے چیئرمین پیمرا ، برادرِ عزیز پروفیسر محمد سلیم بیگ کے ساتھ اُس تقریب میں شرکت سے بڑی راحت ہُوئی۔ اعظم خلیل نے اُس تقریب میں سیاستدانوں کو مدّعو نہیں کِیا تھا لیکن جب مجھے اپنے اور اعظم خلیل کے مشترکہ اور پرانے دوستوں ، نامور صحافی ، دانشور جناب حسین نقی ، (جنابِ بھٹو اور اُن کی پارٹی کے لئے 7 سال تک مختلف جیلوں کے مہمان ) برادرِ عزیز خالد چودھری ، برادرِ عزیز منصور سہیل ( نامور شاعر اور کالم نویس ) برادرم حسن نثار کی چھوٹی بہن ( میری بھی بہن) غزالہ نثار اور کئی دوسرے درویش صفت اِنسانوں سے اُن کی داستان سننے اور اپنی داستان سنانے کا موقع ملا تو مَیں ( فی الحقیقت ) باغ باغ ہوگیا۔
معزز قارئین! اعظم خلیل کا نام بھی بہت خوب تھا ۔ عربی زبان کے لفظ ’’اعظم ‘‘ کے معنی ہیں ’’ بہت بڑا‘‘ اور ’’خلیل ‘‘ سچے دوست کو کہتے ہیں ۔ بلا شبہ اعظم خلیل میرا اور ہزاروں دوستوں کا سچا دوست تھا۔ مَیں تو اُس کے دونوں چھوٹے بھائیوں ، ’’اکبر خلیل ‘‘اور ’’معظم خلیل ‘‘کو بھی ’’اعظم خلیل ‘‘کے روپ میں دیکھ رہا ہُوں۔ میری دُعا ہے کہ ’’ وہ طویل مدّت تک اپنے اپنے دوستوں سے اپنی داستاں کہتے رہیں !
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024