سرہند ریلوے سٹیشن: روپڑ کے مسلمانوں کا قتل عام
گزشتہ کالم میں سرہند ریلوے سٹیشن پر روپڑ سے آنے والی مسلمانوں کی ٹرین پر سکھوں کے سفاکانہ حملوں کے نتیجے میں ہونیوالے قتل عام کا سرسری تذکرہ ہوا تھا۔ ڈاکٹر سعید احمد ملک کی تصنیف ’’1947 ء کا قتل عام‘‘ میں اس خوں چکاں سانحہ کا قدرے تفصیل سے ذکر ہوا ہے۔ یہ کالم اس کتاب میں بیان کئے گئے واقعات کے حوالے سے سپرد قلم کیا جارہا ہے۔ پٹیالہ شہر سے سر ہند سٹیشن تقریباً 35 کلو میٹر کے فاصلے پر ہے۔ روپڑ سے ریلوے لائن براستہ بستی پٹھاناں سر ہند سٹیشن جاتی ہے۔
’’الٰہی خاندان‘‘ روپڑ کے مقتدر، صاحب ثروت اور بااثر خاندانوں میں شمار ہوتا تھا۔ شیخ حمید الٰہی جو اس ہنگامۂ داروگیر اور قتل و غارت گری میں کسی طرح زندہ بچ گئے، اپنی داستان غم بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ جب یکم ستمبر 1947 ء کا سورج طلوع ہوا تو روپڑ کی فضا سوگوار، بوجھل اور سہمی سہمی تھی۔ وہاں کے لوگوں کی چھٹی حس بتا رہی تھی کہ کچھ ہونے والا ہے۔ چنانچہ ان کے والد اور تایا نے روپڑ کے ایس ڈی ایم پنڈت لکشمی چندر کو صورتحال سے آگاہ کرنے کی کوشش کی تو اس نے رعونت میں ڈوبی ہوئی پُر خشونت آواز میںحکم دیا کہ ’’شام تک مسلمان شہر خالی کر دیں اور گاڑی میں سوار ہو کر چلے جائیں۔‘‘ یہ وہی ہندو افسر تھا جو اچھے دنوں میں میرے والد کو ہمیشہ عزت و تکریم سے خوش آمدید کہا کرتا تھا۔ اب اسکے سوا اور کوئی چارہ نہ تھا کہ مسلمان روپڑ کے سٹیشن پر کھڑی ’’خونی گاڑی‘‘ میں سوار ہو جائیں۔
’’گاڑی دس بارہ ڈبوں پر مشتمل تھی۔ حالات سے مایوس اور مستقبل سے بے خبر کم و بیش دو ہزار نفوس اس میں سوار ہوگئے۔ سکھ فوج کا ایک دستہ گاڑی کو ’’بحفاظت‘‘ انبالہ پہنچانے پر مامور تھا… میں نے چشم پُر نم سے اپنے شہر کو آخری بار دیکھا۔ گاڑی آہستہ آہستہ چل رہی تھی۔ دل دھڑک رہے تھے۔ نبضیں ڈوب رہی تھیں۔ میں آخری ڈبے میں سوار تھا۔ گاڑی نے بیس میل کا فاصلہ تقریباً پانچ گھنٹے میں طے کیا اور بسی پٹھاناں کے سٹیشن پر پہنچ کر رک گئی۔ گاڑی پھر خراماں خراماں چل پڑی۔ وہ رات کے تقریباً گیارہ بجے سر ہند ریلوے سٹیشن پر پہنچی۔ میں نے کھڑکی سے باہر جھانکا تو مسلح سکھ نظر آئے۔ کسی نے کہا ’’گاڑی پر حملہ ہونیوالا ہے‘‘۔ اب ڈبے میں خوف و ہراس پھیل گیا۔ ہم نے ڈبے کے دروازے بند کر دیئے اور کھڑکیاں چڑھا دیں۔ مکمل خاموشی چھا گئی۔ حملہ آور تلواروں، نیزوں، بھالوں، بلموں اور برچھیوں سے مسلح جھپٹنے کے لئے تیار و بے قرار کھڑے تھے۔
شمال و جنوب، دو اطراف سے بیک وقت حملے کاآغاز ہوا۔ بدمست و بدسرشت حملہ آوروں نے باہر سے نیزے اور برچھیاں مار مار کر کھڑکیاں توڑ دیں جو ریزہ ریزہ ہو کر اندر آگریں۔ دروازے اور کھڑکیاں ٹوٹنے کے بعد حملہ آوروں اور ہمارے درمیان کوئی رکاوٹ حائل نہ تھی۔ اب حملے نے زور پکڑا۔ گولیاں گونجیںاور نیزے نکلے۔ کسی کا بازو کٹا، کوئی تلوار کی کاٹ سے نیم بسمل ہوگیا۔ کسی کے پہلو میں بلم پیوست ہوگئی، کوئی نیزے کی اَنی سے لقمہ اجل بنا۔ کسی کا سر قلم ہوا، کسی کی گردن لٹک گئی۔ اس وقت معصوم بچے بلک رہے تھے اور عورتیں نالہ و شیون کررہی تھیں۔ جو ان زخم پر زخم سہتے اور کراہتے تھے… میرے ہی برتھ پر جواں سال، صاحب جمال، خوش مقال و خوش خصائل میرے تایا زاد بیٹھے تھے۔ ان کی رفیقہ حیات اپنے شیر خوار بچے کو سینے سے لگائے نشست کے نیچے لیٹی ہوئی تھی۔ ایک سکھ پائیدان پر کھڑا ہوگیا اور ان پر برچھی سے حملہ کرنا چاہا… فاصلے سمٹ گئے۔ زندگی اور موت روبرو تھی۔ شمع حیات بادِ صر صر کی زد میں تھی۔ ظالم نے برچھی کا تیز دھار و تابدار پھل میرے تایا زاد کے کشادہ سینے پر رکھ دیا اور بہیمانہ قوت سے برچھی کو بڑھایا اور دبا دیا۔ پھل سینے کی گہرائیوں میں اترتا اور دھنستا چلا گیا۔ زندگی اور موت کی باہمی آویزش کی کوکھ سے پیدا ہونے والی نزعی اور فلک شگاف چیخ نے فضا کو مرتعش اور متزلزل کردیا۔ سنگدل نے برچھی کھینچی، خون کا فوارہ چھوٹا اور دیکھتے دیکھتے وہ چیخ ہمیشہ ہمیشہ کیلئے خاموش ہوگئی… شگفتہ اور شکیل جوان… ایک لاش بن کر بالائی نشست سے نیچے نیم معلق تھا۔
حملے کو تقریباً پینتالیس منٹ گزر گئے۔ ڈبے میں بیت الخلا کے قریب زخمیوں اور لاشوں کا ایک ڈھیر بن گیا۔ میں اپنی نشست سے اٹھا اور ایک ہی جست میں ڈھیر پر جاگرا اور تہہ میں چلا گیا۔ لاشوں اور زخمیوں نے مجھے ڈھانپ لیا۔ زخمیوں اور لاشوں کا بوجھ میری برداشت سے باہرتھا۔ ان کا خون رس رس کر میرے چہرے اور جسم پر گر رہا تھا۔ اسی اثناء میں سکھ حملہ آور گاڑی میں داخل ہوگئے اور لوٹ مار شروع کر دی۔ کسی نے جنبش کی تو اسے نیزے میں پرو دیا۔ کسی نے پہلو بدلا تو تلوار سے اس کا کام تمام کر دیا۔ بہت خونریزی ہوئی۔ آخر خاموشی چھا گئی۔ میں فوراً اٹھا اور گاڑی سے باہر بھاگ نکلا… اور حضرت مجدد الف ثانی کے روضہ پر پہنچ گیا۔ محتاط اندازے کے مطابق اس رات دو گھنٹے کے وقفے میںسکھوں کے حملے اور سکھ فوج کے ’’نام نہاد‘‘ حفاظتی دستے کی فائرنگ سے کم از کم تیرہ سو مسافر شہید ہوئے… ایک روز میں روضہ کے باہر کھڑا تھا کہ دور سے ایک فوجی ٹرک آتا دکھائی دیا جو مسلمان فوجیوں کے اہل و عیال کو لے کر پاکستان روانہ ہونے والا تھا۔ شام کے چار بجے ہم واہگہ پہنچ گئے۔ اس وقت وہاں روٹیاں تقسیم ہو رہی تھیں۔‘‘
’’الٰہی خاندان کے بائیس افرا د سرہند ریلوے اسٹیشن پر شہید ہوئے۔ اس وقت ہر طرف خون ہی خون تھا۔ یہ مظلوموں اور ان کی حسین امیدوں کا خون تھا۔ یہ راہِ وفا کے شہیدوں کا خون تھا لیکن یہی خون نوزائیدہ مملکت کے چہرے کا غازہ بھی تھا، جھومر اور سولہ سنگار بھی تھا۔‘‘
کشتگان خنجرِ تسلیم را
ہر زماں از غیب جان دیگر است
٭…٭…٭