اب یہ شادی ضرور ہو گی!
کیا عجب حالات درپیش ہیں۔ خوشی ہو یا غمی ، ہر معاملے میں احتجاج ہو رہا ہے ۔ شاید فرض کر لیا گیا ہے کہ ہر بات کو منوانے کے لئے احتجاج ضروری ہے ۔ یہ سب موذی وباء کورونا وائرس سے پیدا ہونے والے حالات کی وجہ سے ہو رہا ہے ۔ آپ گھر کے اندر ہو یا باہر۔۔۔آپ کو احتجاج سے سامنا کرنا پڑ رہا ہے ۔پہلے تو صِرف سیاسی حالات کے حوالے سے کہا جاتا تھا کہ حکومت ہو یا اپوزیشن ، کسی نہ کسی صورت احتجاج ہوتا رہتا ہے ۔ اب تو عام زندگی میں ’’احتجاج‘‘بہت بُری طرح شامل ہو گیا ہے۔ لاہور کی مال روڈ، جسے سرکاری طور پر شاہراہ قائد اعظم کا نام دیا گیا ، وہاں بھی آئے روز احتجاج ہوتا ہے۔ احتجاج کرنے والے بڑی بڑی دیگیں اور ڈھول تاشے لے کر مال روڈ پرآگئے (ان دیگوں میں بریانی یا قورمہ نہیں تھا ، ورنہ صورتحال مختلف ہو سکتی تھی)۔ وہاں سینکڑوں ہزاروں لوگ کئی گھنٹے تک احتجاج کرتے رہے ۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت نے جس طرح دوسرے بہت سے کاروبار کھول دئیے ہیں شادی ہالز کو بھی کام کرنے کی اجازت دی جائے کیونکہ ان شادی ہالز سے وابستہ لاکھوں خاندان بے روزگاری کے باعث فاقوں پر مجبور ہیںیہ احتجاج صرف لاہور ہی میں نہیں ہُوا ۔تمام چھوٹے بڑے شہروں میں ہو چکا ہے۔ اب جن لڑکیوں اور لڑکوں کی شادی اس پابندی کی وجہ سے التواء میں ہیں ، ان کی سنی جائیگی اور پچھلے چند دنوں سے دوسرے کاروبار کے ساتھ شادی ہالز کو بھی حفاظتی انتظامات کے ساتھ کھول دیا گیا ہے۔شادی بیاہ کی تقریبات پر پابندی کے خلاف سب سے موثر اور دلچسپ احتجاج تو دلہن بننے کی منتظر لڑکیوں نے کیا۔ احتجاج کرتے ہوئے انہوں نے باقاعدہ عروسی لباس پہنا ہُوا تھا۔ پُر نم آنکھوں سے مطالبہ کیا کہ انہیں دلہن بننے دیا جائے ، اس کے لئے شادی تقریبات کے انعقاد کی اجازت دی جائے ۔ یہ دلچسپ اور انوکھا احتجاج اٹلی میں ہُوا ۔ وہی اٹلی ، جہاںکورونا وائرس کی وجہ سے ابتداء میں سب سے زیادہ اموات ہوئی تھیں، سرکاری طور پر مکمل لاک ڈائون کئی ہفتوں تک کیا گیا۔ لاک ڈائون میں پابندی ہوتی ہے کہ لوگ زیادہ تر اپنے گھروں میں رہیں ۔ کسی جگہ ہجوم نہ ہو سکے کیونکہ کورونا وائرس پھیلتا ہے۔ یار لوگوں کی طبیعت ہے کہ زندگی اور مو ت کا معاملہ ہوتا ہے، پھر بھی رسک لینے سے باز نہیں آتے ، یہی وجہ ہے کہ لوگ پابندیوں سے بہت جلد گبھرا جاتے ہیں۔ تنگ آکر چوری چھپے من مانی کی کوشش کرتے ہیں۔ شادی بیاہ کی تقریبات چونکہ لازم سمجھ لی گئی ہیں، مشرق اور مغرب میں یکساں ان کی اہمیت مسلمہ ہو چکی ہے۔ مغرب میں شادی کوئی مشکل نہیں ، وہاں غیر مسلم چرچ کے فادر یا پادری کے پاس ۔ ایجاب و قبول کر کے شادی شدہ ہوجاتے ہیں۔ کسی کورٹ کچہری میں جا کر چند منٹوںمیں میاں بیوی بن جاتے ہیں لیکن شادی کی خصوصی تقریب کی بات ہی کچھ اور ہوتی ہے ۔ اس کی شا ن اور یادگاری حیثیت کی وجہ سے اسے لازم سمجھا جاتا ہے ۔ اہل ِمشرق تو اسے بہت زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔ مغرب میں شادی کی خصوصی تقریب کسی بڑے ہوٹل، ہال یا فارم ہائوس میں ضرورہوتی ہے ۔ کورونا وائرس سے بچائو کے لئے ایسی تقریبات پر پابندی ہمارے ہاں بھی لگائی گئی جو اب ختم کر دی گئی ہے شائد جو دلہنیں تمام تر شرم وحیا کے باوجود بے چینی کے ساتھ شادی کی تقریب کا انتظار کرتی ہیں۔ ان کی التجا قبول ہو گئی ہے کہ کورونائی اثرات میں خاص حد تک کمی آئی ہے اور کچھ روز مرہ کے معمولات صحیح سمت آئے ہیں ۔شادی بیاہ کیلئے محض ایک تقریب ضروری سمجھی جاتی ہے۔ اگر اس پر بھی پابندی ہو تو ایسی پابندی تو زیادہ دنوں تک برداشت کرنا بڑی ہمت کی بات ہوتی ہے ۔ ایسی ہی کیفیت کے حوالے سے ایک نغمہ لکھا گیا ’’یہ وادیاں ، یہ پر بتوںکی شہزادیاں‘‘پوچھتی ہیں میں کب بنوں گی دلہن‘‘یعنی ایک تقریب پر ٹھہرا ہوتا ہے معاملہ شادی کا ۔ اللہ کرے کہ یہ موذی وباء بہت جلد اس دنیا سے ختم ہو جائے تا کہ شادی کی تقریبات پہلے کی طرح دھوم دھڑکے اور شان و شوکت سے منعقد ہو سکیں۔