لگدا نہی پتا اے جہان کیہڑے رنگ دا
یہ بات درست ہے کہ اس وقت یہ معلوم نہیں ہو پارہا کہ آپ کے پہلو میں بیٹھا ہوا انسان آپ کا دوست ہے یا دشمن اب تک یہی سنتے سناتے آ رہے ہیں کہ عشق و محبت اور دوستی اونچ نیچ دیکھ کر نہیں بنائی جاتی اور دوستی اس پاکیزہ رشتے کا نام ہے جو صرف اور صرف برابری کی بنیاد پر ہی قائم رہ سکتا ہے اور عشق و محبت بھی وہی کامیاب ہوتی ہے جو ایک طرفہ نہیں دونوں طرف سے آگ برابر لگی ہو اور بزدلی منافقت اور ادھر اودھر کی چالاکیوں سے دوستی اور عشق و محبت جیسے رشتوں کی چادر پر اگر شک کا کوئی بھی معمولی سا داغ لگ جائے تو یقین کریں آپ اسے دھونے کی کوشش بھی کریں تو یہ داغ مٹ نہیں سکتا بلکہ یوں کہا جاسکتا ہے کہ یہ چادر پھٹ سکتی ہے لہذا ان رشتوں کی اس چادر کو جہاں تک ہو سکے اسے بزدلی منافقت اور ادھر اودھر کی چالاکیوں سے بچا کر رکھنا چاہیے حکمرانوں اور عوام کا بھی ایک دوستی کا رشتہ ہوتا ہے مگر اس رشتے کی چادر بھی ہمیشہ داغدار ہی رہی اسے کسی بھی حکمران اور کسی بھی دور میں اس چادر کو بچانے اور اس پر لگے ہوئے داغ دھونے کی آج تک کوشش نہیں کی جی ہاں منافق لوگوں سے سنبھل کر رہے کیونکہ یہ پہلے تو آپ سے رو رو کر دکھ پوچھیں گے پھر ہنس ہنس کر لوگوں کو بتائیں گے کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے خوشیوں میں ایسے لوگ سب سے آگے اور مصیبت میں سب سے پیچھے ہوتے ہیں. نہ جانے یہ لوگ دلوں میں نفرتیں لے کر کس قدر سادگی سے ملتے ہیں- اس طرز عمل کو منافقت کہتے ہیں- جب کوئی انسان منافق ہوجائے تو اُس کے لیے دن کو رات کہنا بڑی بات نہیں کیونکہ منافق کے لیے اگر کوئی شے اہمیت رکھتی ہے تو وہ صرف اپنے ذات کی نشوونما ہے۔ خوف، لالچ اور خوشامد منافقت کی عکاسی کرتے ہیں۔منافق وہ انسان ہوتا ہیجو دل میں سوچتاکچھ اور ہے مگرجب بات کرتا ہے تو محفل یا سامع کے موڈ کے موافق۔یعنی اندر سے کچھ اور باہر سے کچھ۔انسان اور منافقت کا رشتہ عرصہ دراز سے چلا آ رہا ہے لیکن آج کل یہ اتنی عام ہو چکی ہے کہ ہر کسی کی زبان اور عمل سے ظاہر ہوتی ہے اور کبھی کبھی تو آپ کو احساس بھی نہیں ہوتا کہ جو جملے آپ اپنے لئے سامنے والے کے منہ سے سُن رہے ہیں آیا وہ واقعی حقیقت پر مبنی ہیں یا ان کو منافقت لپیٹ کر آپ تک پہنچایا گیا ہے۔ کچھ لوگوں میں منافقت نے اپنی جڑیں اس حد تک مضبوط کر رکھی ہیں کہ اس کے بغیر ان کا کسی سے بات کرنا ایسا ہے کہ’’آبیل مجھے مار’’۔ بندہ جب منافقت کی سیڑھیاں چڑھنا شروع کرتا ہے تو اُسے ہر قدم پر جھوٹ بولنا پڑتا ہے۔کہنے کو تو ہماری زندگی میں بہت سے دوست ہوتے ہیں لیکن کچھ واقعی دوست ہوتے ہیں اور کچھ ضرورت کے تحت بن جاتے ہیں۔لیکن اگر اس رشتے کی بنیاد کوئی غرض ہو تو وہ تعلق مطلب کے سوا کچھ نہیں ہوگا- دلوں میں کدورتیں ہوتی ہیں لیکن منہ پر وہی میٹھی مسکان سجائے ملتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو مطلب کے لئے آپ سے دوستی تو کر لیتے ہیں لیکن دل کو دوستی پر آمادہ نہیں کر پاتے۔ وقت بہ وقت ضرورت کے تحت آپ کو استعمال کرتے ہیں لیکن جب کبھی آپ کو ان کی ضرورت پڑتی ہے تو وہ بڑی آسانی سے کوئی بہانہ بنا کر اپنا دامن جھاڑ لیتے ہیں اور یہی وہ وقت ہوتا ہے جب ان کا اصلی چہرہ آپ کے سامنے ہوتا ہے۔بقول شاعر:
مرحلہ دشوار آیا تو ظرف سب ہی کے کھُل گئے
لوگ جیسے دِکھ رہے تھے، ایک بھی ویسا نہ تھا
غالب کی تو کیا توقع اٹھی ہو گی،جو ہماری اٹھ گئی
لیکن یہ دنیا ہے...اور دنیا پتل دی.
اگر انسان یہ نفسا نفسی چھوڑ دے تو بات ہی کیا ہے..ایک ذرا سی زندگی میں صرف اپنی خواہشوں کے لئے کتنوں کے دل پامال کرتا ہے...یہ حضرت انسان..مجھے کیا چاہئے..میں کیا چاہتا ہوں.اس سے آگے کتنے لوگ نکل پاتے ہیں...ساری زندگی ایک میں کے گرد گھوم رہی ہوتی ہے...اس میں سے آگے نکل کر دیکھیں کہ دنیا کتنی بڑی ہے..اور کتنوں کے کام آسکتی ہے آپ کی یہ زندگی،،زبانی زبانی نہیں...سچ مچ حقیقت ہے جو دوسروں کو دے کر خوشی ملتی ہے.وہ لے کر نہیں ملتی.اگر ہر انسان اپنی اپنی جگہ جتنا ہو سکے خوشیاں بانٹنے کی کوشش کرے..دوسروں کو بھی اپنے جیسا ہی انسان سمجھے..جتنی عزت کا خود طلبگار ہے.اتنی ہی عزت اوروں کو بھی دے..تو یہ دنیا کسی حد تک رہنے کے قابل بن سکتی ہے۔ کاش ایسا ہو سکے۔