پاکستان اور خارجہ پالیسی
دنیا بدل رہی ہے کروناPandemicنے اب تک 8لاکھ کے قریب انسان ہلاک کر دیئے ابھی امریکہ میکسیکو،برازیل ،بھارت اور کچھ دیگر ممالک ہلاکتوں میں کمی ضرور ہوئی مگر اب بھی ہزاروں افراد موت کی نذر ہورہے ہیں ۔پاکستان میں اب تک شاید8ہزار سے زائد افراد جان سے گئے مگر اللہ نے ابھی اپنے خصوصی کرم سے چند اموات روزانہ سے آگے نہیں بڑھنے دیا مگر کچھ ہمارا عمومی عوامی رویہ مکمل طور پر غیر ذمہ دار انہ ہی رہا کیا بازار اور کیا دیگر جگیں ہجوم برسرروزگار اور برسرپیکار رہے اپنے اپنے معاملات میں اور یہ سلسلہ جاری ہے باوجود حکومتی ہدایات کے۔ حکومت پاکستان کے وزراء کہہ رہے ہیں کہ 8ارب ڈالر خرچ کر رہے ہیں لوگوں کی کرونامد میں 12ہزار فی کس تقسیم کے حوالہ سے ۔خیر سے کچھ امداد بین الاقوامی سطح پر اور کچھ قرض بھی اٹھالیا گیا ۔IMFاور عالمی بینک نے قرضے کی ادائیگی میں کچھ رعاتیں دی ہیں ان کے اسرار و رموز کا وقت آنے پر ہی پتہ چلے گا ۔فی الحال تو بیرون ملک سے کرونا کے اثرات کے باعث مڈل ایسٹ سے 50ہزار سے زائد افراد پاکستان میں بوجہ بے روزگاری واپس آرہے ہیں اور یہ سلسلہ فی الحال جاری رہے گا خاص کر UAEاور سعودی عرب سے ۔ویسے بھی دونوں ممالک کے اسرائیل سے تعلقات کے حوالہ سے پاکستان سے کچھ تلخی اور تناؤ کا شکار نظر آتے ہیں ۔UAEنے تو امریکہ میں صدر ٹرمپ کی موجودگی میں اسرائیل سے تعلقات بحال کر لیے ہیں گو کہ OICاور عرب لیگ فلسطین کے حوالہ سے واضع موقف رکھتے ہیں مگر سعودی متوقع بادشاہ محمد بن سلمان ٹرمپ کے داماد سے خصوصی دوستانہ تعلقات رکھتے ہیں اور کہا جارہا ہے کہ اسکی یہودی بیوی کا اس کامیابی میں سفارتی ہاتھ ہے ۔صدر امریکہ تو اپنے نومبر میں صدراتی الیکشن کے لیے ہاتھ پیر ماررہے ہیں جبکہ ان کے مدمقابل جوبارڈن کاگراف اوپر جاتا نظر آتا ہے خاص کر ٹرمپ کی معاشی پالیسوں ۔غیرسفیر شہریوں کے ساتھ غیر معیاری سلوک اور بے روزگاری اس کے لیے معیشت پر غیر ملکی جنگوں کا بوجھ وغیرہ اہم اسباب ہے ۔ٹرمپ کا متعصبانہ رویہ بھی خاصا اہم ہے ۔مگر اس کا بیان کہ جلد عرب دنیا میں مزید ملک اسرائیل کو تسلیم کرلیں گے لمحہ فکریہ ہے مسلمانوں کے لیے کہ ان کا قبلہ اول پنجہ یہود میں ہے ۔کیا شک ہے کہ دنیا کے قدرتی خزانے اور قدرتی سازوسامان مسلم دنیا کے پاس مگر روپیہ یورپ اور امریکہ کے بینکوں میں اور بیشتر مسلم حکمران مغرب کے رحم و کرم پر ان کے زیر اثر اور اسیر کیا جرات کہ کوئی آزادانہ فیصلہ کر سکیں فلسطین ہو کشمیر یا میانمر یا پھر بھارت میں مسلمانوں کا قتل عام اور مشرق وسطیٰ کی تباہی اور بربادی 1-1/2ارب کے قریب مسلم آباد ی اور اقوام متحدہ میں کوئی آواز اور حیثیت نہیں پاکستان سمیت ۔ملیشیاء کے مہاتیر محمد اور ترکی کے اردگان اور ایران کی آواز بہرحال سنائی دیتی ہے اور کیا اس آواز کو واقعی مسلم دنیا کی آواز بنایا جاسکتا ہے اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے ۔سازشیں اور بین الاقوامی اثر و رسوخ اپنی جگہ ۔کیا پاکستان بھی کوئی موثر کردار ادا کر سکتا ہے ؟اور کیا قومی اور بین الاقوامی تناظر اس سلسلے میں کوئی گنجائش نکلتی ہے اور کن خطوط پر پاکستان کی خارجہ پالیسی کو استوار کیا جاسکتا ہے ۔کرونا نے بین الاقوامی معیشتوں کو تو متاثر کیا چاہے جاپان ہو یا امریکہ یا پھر یورپ رہا تیسری دنیا کا تو وہ بجائے کرونا ہو یا نہ ہو کئی قسم کی بیماریوں اور مشکلات کا شکار رہتے ہیں معاشی بدحالی سیاسی حالات اور بین الاقوامی اور مقامی جنگوں کے پیش نظر ۔تازہ ترین لیبیا ،یمن ،شام بطور مثال پیش کیے جاسکتے ہیں نہ تجارت انکے کام کی اور نہ تیل نہ سیاست ار نہ ہی غربت کا خاتمہ موت انتہائی ارزاں اور انفراسٹرکچر کی تباہی ۔نہ داخلہ امور نہ خارجہ امور ۔افغانستان میں امریکی اور NATOمداخلت نے 15لاکھ سے زائد انسانوں کی جان لی ۔پاکستان کی معیشت کی تباہی اور دھشت گردی نے رہی سہی کسر نکال دی ۔خدا کا شکر ہے کہ پاکستان کے وزارت خارجہ نے جس تیزی سے عرب امارت اور اسرائیل کے تسلیم کرنے کا گول مول تذکرہ کیا یہ خطرہ لاحق ہوگیا تھا قومی حلقوں میں کہ پاکستان میں بھی اسرائیل کو تسلیم کرنے والے بہت سے سیاستدان بھی ہیں اور خیر سے ہمارے Pseudoدانشور بھی دراصل پاکستان میں ملت فروشوں کی ہر شعبہ جات میں کثیر تعداد ہے قائداعظم کے بعد ملاحظہ کر لیں آج تک؟لاہور میں امریکی کونسل جنرل نے چند دھائیاں پہلے جو پاکستانیوں کے متعلق کہا باعث شرم ہے پھر بھی خرید و فروخت جاری ہے کبھی کراچی اور کبھی لاہور اور بلوچستان ،KPK،اور ملک کے دوسروں حصوں میں بھارتی راء اور افغان خفیہ اداروں کے ایجنٹ پکڑے جاتے ہیں تازہ ترین خبر کے مطابق افغانستان میں کننڑمیں پاکستان دشمن طالبان اور احرار وغیرہ کے پاکستان اور افغان اجتماع میں پاکستان کے خلاف بھارتی سازشوں کا افغانستان کی مدد سے جو جاری ہے مزید تیزی دکھانے کا فیصلہ ہوا ۔پاکستان کو کس قدر ہوشیاری کی ضرورت ہے یہ توجہ طلب امر ہے ہمیں ہر سطح پر ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے کی بجائے قومی امور اورمعاملات پر بات بھی کرنی چاہیے اور غور و فکر بھی کہ پاکستان میں اندرونی استحکام کو کیسے یقینی بنایا جائے کیونکہ خارجہ تعلقات اور امور تو قومی اتحاد اور یکجہتی کا آئینہ دار ہوتے ہیں ۔سیاست کار ،سول اور ملٹری بیوروکریسی اور اہل علم اس پر خصوصی توجہ دیں ۔وزیر خارجہ محمود قریشی کا بیان کافی بحث و تمحیص کا باعث ہے ۔مگر ان کا بیان کسی حد تک درست بھی تھا ۔آخر کار ہمیں عرب دنیا سمیت تمام دنیا کے ممالک سے باعزت اور باوقار رشتوں کو استوار کرنے کی کوشش کرنی چاہیے اور قائداعظم کے فرمان کے مطابق خارجہ امور اور بین الاقوامی تعلقات میں باہمی احترام اور قومی مفادات مدنظر رہنے چاہیے ۔پاکستان نے 72سال میں خارجہ امور میں جو غلطیاں کیں ان کا خمیازہ بین الاقوامی اداروں اور ملک میں بھی کافی بھگت لیا ۔اب علاقائی تعاون پر توجہ کی ضرورت ہے بھارت کو چھوڑ کر دیگر سے رسمی تعلقات ہوسکتے ہیں اب مزید تجارت اور رواداری نہ ہی کریں تو بہتر ہے ۔نظر یوں آتا ہے کہ سعودی پرنس ناراض ہوگیا ہے ۔ چیف آف آرمی سٹاف جنرل باجوہ اور آئی ایس آئی ایس کے سربراہ سعودی عرب بھی گئے تھے ۔