سوہاعرفان کی کتاب دی مائنڈ لیس جینیئس کی تقریب رونمائی
کراچی(نیوز رپورٹر) 19سالہ نوجوان مصنفہ سیدہ سوہاعرفان کی کتاب دی مائنڈ لیس جینیئس(The Mindless Genius) کی تقریب رونمائی کے موقع پر صدارتی خطبہ پیش کرتے ہوئے شیخ الجامعہ پروفیسر خالد عراقی نے کہا ہے کہ کتاب لکھناکوئی آسان کام نہیں ہے اس کے لئے شوق مطالعہ کے ساتھ ساتھ مزاج میں تسلسل کا ہونا ضروری ہے،کتاب کے نام کی انفرادیت ہی قاری کو اپنی جانب سیمائل کرنے کے لئے کافی ہے،شیخ جامعہ نے مصنفہ کو جامعہ کراچی کی جانب سے گولڈ میڈل اور لائف ٹائم اسکالرشپ کا بھی اعلان کیا،کتاب کی رونمائی کی بدھ کی شب آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے آڈیٹوریم میںہوئی ،مقررین میںشیخ جامعہ کے علاوہ صوبائی وزیر اطلاعات و محنت سعید غنی ،آرٹس کونسل کے صدر محمد احمد شاہ،سابق گورنر سندھ لیفٹیننٹ جنرل(ر)معین الدین حیدر،سابق وفاقی وزیر برائے قانون بریسٹر شاہدہ جمیل ،سابق وفاقی وزیر جاوید جبار ،پروفیسر اعجاز فاروقی ٹرنکی پبلشر کے ڈائریکٹر علی دانش شامل تھے،صوبائی وزیر اطلاعات و محنت سعید غنی نے کہا ہے کہ بعض اوقات میں کچھ باتوں میں جذباتی ہوجاتا ہوں اور بات نہیں کرپاتا،محترمہ بینظر بھٹو صاحبہ سے متعلق کوئی بات ہوتی ہے تو میں بہت جذباتی ہوجاتا ہوں،اسی طرح جب میرے والد سے متعلق بات ہوتی ہے کہ میں گفتگو نہیں کرپاتا،اسی طرح آج جب اس تقریب میں کتاب کی مصنفہ سوہا عرفان صاحبہ کو سن رہا تو میری حالت بالکل ایسی ہی ہوگئی تھی میں یہیں دعا مانگ رہا تھا کہ میرے بچے بھی سیدہ سوہا جیسے ہوجائیں جب یہ بچی بول رہی تھی تو میں نے احساس کیا کہ اس بچی میں لکھنے کے لئے ساتھ ساتھ بولنے کی صلاحیت بھی ہے ،معین الدین حیدر نے کہا کہ بہت کم عمری میںایک مصنفہ نے اتنی زخیم کتاب لکھی جو قابل تحسین ہے،شاعری کرنا،کہانیاں کہنا اور ناول لکھنا کوئی عام بات نہیں ہیسیب کے باغ میں گرتے سیب ہم سب کھاتے ہیں لیکن سیب جب نیوٹن کی جھولی میں گرتا ہے تو وہ کشش ثقل کا قانون پیش کردیتا ہے۔جاوید جبار نے کہا ہے کہ مصنفہ زندگی کی کم میں ہی جن تکلیف کا سامنا کیا ہے اسکا عنصر کتاب میں واضح جھلکتا ہے،کتاب کو پڑھ کر اس بات کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کس جذبہ سے اسے تحریر کی گئی ہیجو اسکے تحریر کے معیار کی بھی عکاسی کرتی ہے،میں اپنے نوجوانوں سے یہیں کہوں گا کہ وہ زیادہ سے زیادہ پڑھے تاکہ سوچنے سمجھے کی صلاحیتوں میں اضافہ ہو،سیدہ سوہا جیسے نوجوان لکھاریوںکا انگریزی میں اس طرح کی کتابیں لکھنا اسبات کی بھی دلیل ہے کہ پاکستان میں آج انگریزی تحریر اچھا ہے،بریسٹر شاہدہ جمیل نے کہا ہے کہ اس کتاب میں دل دہلادینے والے جملے موجود ہے اور حیرت ہوتی ہے کہ اتنی کم عمری میں کس طرح کوئی لڑکی اتنی گہری باتیں سوچ سکتی ہے ایک ایسے دور میں جب نوجوان اسمارٹ فون کے ساتھ منسلک ہوگیا ہے جس کی وجہ سے بچوں کی ذہانت ختم ہورہی ہے اس طرح کی کتاب کا آنا بہت اچھی بات ہے،احمد شاہ نے کہا کہ جب تک دنیا باقی ہے کتاب باقی رہتی ہے،سوہا عرفان نے کتاب لکھ کر اپنے اہل خانہ کا نہ صرف نام روشن کیا بلکہ دنیا میں اپنی انفرادی شناخت بھی پیدا کردی ،پروفیسر اعجاز فاروقی نے کہا کہ ہمیں اس طرح کے بچوں کی حوصلہ افزائی کے لئے تمام تر کوششیں برائے کار لائیں گے،خوشی ہوتی ہے کہ اس طرح کے نوجوان کتابیں لکھ رہے ،علی دانش نے کہا کہ اس تقریب کا مقصد صرف اس کتاب کی رونمائی نہیں ہے بلکہ اپنے نوجوانوں کو کتاب لکھنے کی طرف راغب کرنا ہے۔کتاب کی مصنفہ سیدہ سوہا عرفان نے کہا ہے کہ میں نے 16 سال کی عمر اس کتاب کو لکھا جب میں گریڈ 8 کی طالبہ تھی اس کتاب کو لکھنے کا مقصد یہ بتانا تھا کہ ہم آپ ،جو ہو وہ آپ ہو آپ ہر ایک سے مختلف ہو،آپ کو خود پر اعتماد ہونا چاہئے آپ کیا ہیں پھر آپ دوسروں سے کہیں کہ وہ آپ کو تسلیم کریخود کو عزت دینے کی ضرورت ہے،میری والدہ مجھ سے کہتی تھی بیٹا تمہارے راستہ میں جو بھی مشکل آئے تم اپنے مقصد سے پیچھے مت ہٹنا،میں سمجھتی ہوں ہر ایک کو خواب دیکھنے کا حق ہے کیونکہ خواب دیکھنا ہی زندگی ہے۔